یاسین ملک کا جرم؟

300

اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے بھارت کی جانب سے کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی عمر قید کی سزا پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ او آئی سی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یاسین ملک اہم ترین کشمیری لیڈر ہیں جو آزادی کی پُرامن جدوجہد کی قیادت کر رہے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیریوں کی حقیقی جدوجہد ِ آزادی کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے، بھارت سے تمام کشمیری رہنمائوں کو رہا کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم فوراً بند کرنے کا مطالبہ ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی عدالت نے کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک کو گزشتہ دنوںدہشت گردی کی فنڈنگ کے جھوٹے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ یاد رہے کہ یاسین ملک نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نہ صرف کئی برسوں سے قید ہیں بلکہ عالم اسلام اور نام نہاد مہذب دنیا کی بے اعتنائی کا بھی شکار ہیں۔ یاسین ملک کی سزا کے اعلان کے ساتھ ہی سرینگر میں واقع ان کے آبائی گھر کے باہر قابض بھارتی فورسز کی بڑی تعداد میں تعیناتی کے باوجود سرینگر کے لال چوک میں ان کی حمایت میں مظاہرے کیے گئے جس سے گھبرا کر بھارتی سرکار نے سرینگر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کرکے ہر قسم کے احتجاج پر سخت پابندی عاید کرکھی ہے۔
کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے حوالے سے اس تلخ حقیقت کو شاید کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ کشمیر دنیا کی بے حسی کے ساتھ ساتھ اس کی منافقت کا بھی شکار ہے۔ دراصل یہ عالم اسلام کی 57ریاستوں اور ان کی نمائندہ او آئی سی کی اخلاقی اور دینی ذمے داری ہے کہ چاہے چھوٹے اقدامات ہی سہی لیکن انہیں اس المناک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں پر گزشتہ 75سال سے ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کے خلاف اب کوئی نہ کوئی عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر اسلامی ممالک براہ راست کشمیریوں کی کوئی عملی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو وہ کم از کم بھارت کے اوپر سیاسی اور اقتصادی دبائو تو ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک چوتھائی ارکان پر مشتمل او آئی سی اگر اس عالمی فورم پر کشمیر کے حوالے سے یکساں موقف اپنائے تو یہ مسئلہ برسوں اور مہینوں کے بجائے ہفتوں اور دنوں میں حل ہوسکتا ہے کیونکہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی نقطہ ٔ نظر فریب اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں کے تحت جن پر ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اتفاق کیا ہے کے مطابق کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک سے نہیں ہے۔ اگر کشمیر اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک سے تعلق نہیں رکھتا تو پھر کشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کا دعویٰ قائم نہیں رہتا۔ لہٰذا، اگر کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے تو کشمیریوں کو علٰیحدگی پسند کہنا توہین اور سراسر غلط فہمی ہے کیونکہ کشمیر کسی ایسے ملک سے الگ نہیں ہو سکتا، جس کے ساتھ اس نے پہلے کبھی الحاق نہیں کیا۔ کشمیر نہ تو کبھی عملاً ہندوستان کا اور نہ ہی برطانوی ہندوستان کا حصہ رہا ہے، اس لیے کشمیر میں ہندوستانی قوانین میں سے کوئی بھی قانون بندوق کے زور پر نافذ کرنا انسانیت کی توہین کی بدترین مثالیں ہیں۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت کشمیر ہندوستان کا خودمختار حصہ نہیں تھا اس لیے وہاں آزادی کی خاطر جاری مزاحمتی تحریک نہ تو علٰیحدگی کی تحریک ہے اور نہ ہی جانشینی بلکہ حق خودارادیت کی تحریک ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتی ہے۔
عدالت میں دوران سماعت یاسین ملک اور جج کے درمیان ہونے والے مکالمے میں یاسین ملک کے ان تین واضح سوالات کہ اگر وہ دہشت گرد تھا تو اسے انڈین پاسپورٹ کیوں جاری کیا گیا؟ اگر وہ دہشت گرد تھا تو اس سے سات ہندوستانی وزرائے اعظم کیوں ملاقاتیں کرتے رہے؟ اگر وہ دہشت گرد تھا تو انڈیا سمیت مختلف ممالک میں لیکچرز سیمینارز میں کیوں مدعو کیا جاتا رہا؟ یاسین ملک کے سوالات پر عدالت نے کہا کہ یہ پہلے کرنے کی باتیں تھیں اب آپ صرف یہ بتائیں کہ اپنی سزا پر کیا کہنا چاہتے ہیں، جس پر مرد حریت نے کہا کہ میں عدالت سے کوئی بھیک نہیں مانگوں گا، عدالت جو سزا دینا چاتی ہے دے دے۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ قائد حریت سید علی گیلانی مغفور ومرحوم کے بعد یاسین ملک وہ واحد اور نامور راہنما ہیں جن کی زندگی آزادی کشمیر کے لیے وقف رہی ہے۔ انہوں نے 1994 میں کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرکے کشمیر لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے کشمیرکی آزادی کی پرامن جدوجہد کا راستہ اپنانے کا اعلان کیا اوراس وقت سے لیکر آج تک وہ اپنے اس عزم اور مشن پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 2019 میں ہندوستان کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کیا تھا اور اب تین سال بعد ان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کو دومرتبہ عمر قید اور بھاری مالی جرمانے کی سزا سنائی ہے جس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم غیر منصفانہ سزا کی مذمت کرتے ہیں پاکستان کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہے ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہر ممکن تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔