انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کا قیام

434

امریکی صدر جو بائیڈن نے جاپان کے اپنے حالیہ دورے میں کواڈ ممالک جن میں امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد ایک نئے انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس میں ابتدائی طور پر بھارت اور جاپان سمیت 13 ممالک شامل ہیں، تاہم اس معاہدے کے موثر ہونے کے حوالے سے جہاں دنیا بھر میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہاں اس پر چین کی جانب سے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ آئی پی ای ایف نامی اس اتحاد کا مقصد امریکی اتحادیوں کو جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی کردار کا متبادل فراہم کرنا ہے۔ دراصل امریکا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اس خطے کی اہمیت کے پیش نظر یہاں سالانہ 940 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے علاوہ اب تک کم از کم 15 کروڑ ڈالر ڈیجیٹلائزیشن، توانائی اور بنیادی ڈھانچوں سے متعلق منصوبوں کے لیے بھی وقف کرچکا ہے۔ امریکا کی یہاں دلچسپی اور سرمایہ کاری کی ایک وجہ اگر یہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات ہیں تو اس کی دوسری بڑی وجہ اس خطے کی اہمیت ہے جہاں دنیا کی ایک تہائی آبادی کے علاوہ دنیا کی چھے سب سے بڑی معیشتوں میں سے چار کا تعلق اس خطے سے ہے۔ امریکی صدرجو بائیڈن کا زیر بحث انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ فریم ورک خطے میں امریکا کے قریبی دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ، اقتصادی مسابقت کو یقینی بنانے کے لیے درپیش اہم چیلنجز کے خلاف کام کرنے کا عزم ہے۔ جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا سے ملاقات میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ نیا انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک خطے میں دیگر اقوام کے ساتھ امریکی تعاون میں مزید اضافہ کرے گا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یہ فریم ورک ریاست ہائے متحدہ اور ایشیائی معیشتوں کو سپلائی چین، ڈیجیٹل تجارت، صاف توانائی، کارکنوں کے تحفظ اور انسداد بدعنوانی کی کوششوں سمیت مسائل پر زیادہ قریب سے کام کرنے میں مدد کرے گا۔
دوسری جانب جاپان نے خطے میں امریکی کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس موقع کو جہاں چین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہاں جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا کا اس موقع پر کہنا ہے کہ امریکی صدر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامل ہونے کی جاپان کی کوشش کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ وقت آنے پر وہ اس ضمن میں اپنا اثر رسوخ بھی جاپان کی رکنیت کے حق میں استعمال کریں گے۔ واضح رہے کہ سلامتی کونسل میں توسیع کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سطح پر عرصہ دراز سے بات چیت چل رہی ہے لہٰذا اگر اقوام متحدہ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو جاپان بھی دیگر پانچ ممالک امریکا، چین، روس، فرانس اور برطانیہ کی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جائے گا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جو بائیڈن نے اگلے سال جاپانی وزیراعظم کیشیدا کے آبائی شہر ہیروشیما جس پر امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ایٹم بم گرایا تھا میں منعقد ہونے والے گروپ آف سیون کے سربراہ اجلاس میں شرکت پر بھی رضا مندی ظاہرکی ہے۔
یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے انڈو پیسیفک تجارتی فریم ورک سے متعلق بیان کے اگلے ہی روز اعلان کیا ہے کہ چین کے ریاستی کونسلر اور وزیرخارجہ چھبیس مئی سے چار جون تک انڈو پیسیفک ریجن کے آٹھ ممالک جن میں جزائر سلیمان، کریباتی، ساموا، فجی، ٹونگا، وانواتو، پاپوا نیو گنی اور مشرقی تیمور شامل ہیں کے سرکاری دورے کے علاوہ فیڈریٹڈ اسٹیٹس آف مائیکرو نیشیا کا ورچوئل دورہ کریں گے جب کہ وہ کک آئی لینڈ کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نیز نییو کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ورچوئل ملاقات کے ساتھ ساتھ فجی میں چین بحرالکاہل ممالک کے وزرائے خارجہ کے دوسرے اجلاس کی صدارت بھی کریں گے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے کہا کہ چین، جزائر بحرالکاہل اور مشرقی تیمورکے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ چین متعلقہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام، مساوات، مشترکہ مفادات اور مشترکہ ترقی کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کو آگے بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ وزیرخارجہ وانگ ای کے اس دورے سے چین اور مذکورہ ممالک کے مابین باہمی سیاسی اعتماد کو مضبوط بنایا جائے گا اور مختلف شعبوں میں تعاون بھی آگے بڑھایا جائے گا جو ایشیا و بحرالکاہل خطے میں امن و استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرے گا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہو گی کہ کچھ عرصہ پہلے اسی خطے میں واقع جزائر سلیمان اور چین کے درمیان ہونے والے سیکورٹی معاہدے پر امریکا، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کا اس معاہدے کے متعلق کہنا ہے کہ چاروں ممالک (امریکا، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا) کے حکام نے جزائر سلیمان اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان سیکورٹی فریم ورک پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس سے آزاد اور کھلے ہند- بحرالکاہل کے لیے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسے اس معاہدے میں شفافیت کی کمی اور اس کی غیر واضح نوعیت کے بارے میں فکر لاحق ہے اور غالباً یہی وہ فکر ہے جس نے اب امریکا کو دو قدم آگے بڑھ کر اگر ایک طرف چار ممالک پر مشتمل علاقائی دفاعی تنظیم کواڈ کو متحرک کرنے کے فیصلے پر مجبور کیا ہے تو دوسری جانب وہ چین کی سرمایہ کاری اور تجارت پر مبنی علاقائی حکمت عملی کو کائونٹر کرنے کے لیے انڈو پیسفک تجاری فریم ورک جیسے شراکت داری پر مبنی اتحاد بنانے پر بھی مائل ہوا ہے۔