سیاسی قیادت متنازع بیانات سے اجتناب کرے ، فوجی ترجمان

361

 

راولپنڈی ( خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈر پشاور کے حوالے سے سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں،ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، سینئر قومی سیاسی قیادت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کے خلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں گے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے، جو دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے، اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے،افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور آفیسرز ہمہ وقت وطن کی خودمختاری اور سا لمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رہے ہیں، آرمی چیف کے تقرر سے متعلق باتیں بالکل بھی مناسب نہیں ہیں، اس کا طریقہ کار آئین اور قانون میں وضع کر دیاگیا ہے، تقرر آئین اور قانون کے مطابق ہو جائے گا، اس موضوع کو بحث بنانا اور بات چیت کرنا اس کو متنازع بنانے کے مترادف ہے، آرمی چیف کے تقرر سے متعلق ایک بار پھر درخواست ہے اس کو موضوع بحث نہ بنائیں۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خدا ناخواستہ فوج میں کوئی تقسیم ہو سکتی ہے تو اس کو فوج کی روایات اور کلچر کا پتا ہی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جائز تنقید سے کسی کو مسئلہ نہیں ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا پرجو کیا جا رہا ہے وہ تنقید نہیں پروپیگنڈا ہے۔ڈی جی آیس آیس پی آر کے بقول جلد انتخابات کا فیصلہ سیاستدانوں کو کرنا ہے، فوج کا اس چیز میں کوئی کردار نہیں بنتا، پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اتنی قابل ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر اس بارے میں بات کر سکتے ہیں، اگر الیکشن کے انتظام میں فوج کی ضرورت پڑی توسیکورٹی دینے کے لیے الیکشن کمیشن فوج کو بلا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی سیاسی معاملے میں فوج کو بلایا گیا ہے یا اس نے مداخلت کی وہ متنازع ہو گیا ہے، اسی لیے فوج کی لیڈرشپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمیںاپنے آپ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے۔بابرافتخار نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ فوج کبھی بھی سیاست دانوں کو ملاقات کے لیے نہیں بلاتی، جب فوج سے درخواست کی جاتی ہیں توپھر آرمی چیف کو ملنا پڑتا ہے، اس حوالے سے ساری کی ساری ذمے داری سیاست دانوں پر ہوتی ہے۔فوجی ترجمان نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمیں یہ بیان دینا پڑا ہے، یہ کسی ایک مخصوص جماعت کے بارے میں نہیں ہے۔انہوں نے پروگرام میں تفصیل سے بات کی ہے اور کہا کہ پچھلے کئی دنوں میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے کئی ایسے بیانات دیے ہیں جو ہماری مسلح افواج کی سینئر لیڈرشپ، مسلح افواج بطور ادارے پر ان کے مورال اور وقار پر اثرات مرتب کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بار بار درخواست کر رہے ہیں فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ ہمارا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور ہماری تمام لیڈر شپ کی اپنی ذمے داریوں پر توجہ ہے،ہم کافی عرصے سے بطور ادارہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیںکہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں اور سیاسی گفتگو کا حصہ نہبنائیں۔ ترجمان کے بقول پچھلے 74 سال سے پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کا بھی ہمیشہ یہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا مختلف جگہوں، مواقع پر جو بھی سیاسی کردار رہا ہے اس سے فوج کو باہر آنا چاہیے۔فوجی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ادارے نے جب یہ فیصلہ کیا اور اس کو واضح طور پر بتا دیا، یہ ادارے میں کسی فردِ واحد کا فیصلہ نہیں بلکہ ادارے کی لیڈرشپ اور پورے ادارے کا فیصلہ ہے۔میجر جنرل بابرافتخار نے یہ بھی کہاکہ ہمارے سیکورٹی چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ ہم ملک کی سیاست میں مداخلت نہیں کر سکتے، ہمیں اپنے ملک کی حفاظت کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے، اگر ملک کی حفاظت میں کسی بھی قسم کی بھول چوک ہوئی تو اس کی کوئی معافی نہیں ہے۔