دونوں پھنس گئے

834

کالج کے زمانے کی بات ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’’ایشیا‘‘ یا تو سرخ ہوا کرتا تھا یا سبز۔ اْس زمانے میں نہ صرف طلبہ تنظیمیں ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ ہوتی بھی بہت فعال تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات کے دوران خطرناکیت میں بہت اضافہ ہو جایا کرتا تھا۔ تصادم کے خطرات بڑھ جایا کرتے تھے اور اکثر اوقات کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہو جایا کرتی تھیں لیکن اس کا مثبت پہلو یہ تھا طالبعلموں میں بہت سارے شعبوں میں مسابقت اور مقابلے کی جنگ ان میں چھپی بہت ساری صلاحیتوں کو نمایاں کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتیں اور بیشمار طلبہ کی قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آجایا کرتیں۔ انتخابات کے بعد بھی اکثر مواقعوں پر تصادم کی سی کیفیت کبھی کبھی ماحول کو کشیدہ کر دیا کرتی تھی لیکن یہ کیفیت زیادہ تر عارضی ہوا کرتی تھی۔ حسبِ مخالف کا کام کیونکہ ہوتا ہی مخالفت کرنا ہے اس لیے بہت سارے مقابلوں کے انعقاد کے دوران ہنگامہ آرائیاں دیکھنے میں آیا کرتی تھیں۔ اسی طرح کسی کالج کے بڑے فنکشن کے موقع پر مخالفین نے یہ طے کیا کہ عین جس وقت فنکشن اپنے عروج پر ہوگا، شدید ہنگامہ آرائی کرکے سارا انتظام درہم برہم کر دیا جائے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا تھا جب آج کی طرح ہر خبر جنگل کی آگ کی طرح فوراً ہی نہیں پھیل جایا کرتی تھی۔ زیادہ تر خبریں اگلے دن کے اخبارات سے پتا چلتیں یا پھر کبھی ریڈیو پاکستان سے آگاہی حاصل ہوتی۔ ریڈیو پاکستان ہو یا پاکستان ٹیلی ویژن، یہ دونوں اہم یا کسی بڑی ہنگامہ آرائی کو تو اہمیت دیا کرتے تھے لیکن آج کی طرح ہر معمولی یا چھوٹی خبر کو کبھی نہیں اچھالا کرتے تھے۔ چنانچہ اگلے روز کالج ہی میں طالب علم کچھ اس انداز میں تبصرہ کر رہے تھے کہ فنکشن کرنے والے بھی کامیاب رہے اور جنہوں نے ہنگامہ آرائی کرکے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا اہتمام کیا تھا وہ بھی ناکام نہیں ہوئے۔ اس دلچسپ تبصرے پر حیرت کے اظہار کے ساتھ جب یہ کہا گیا کہ اس بات کا مطب کیا ہوا تو جواب ملا کہ دراصل ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو رنگ میں بھنگ ملانے کا موقع اتنی تاخیر سے ملا کہ فنکشن تقریباً اختتام پذیر ہی ہونے والا تھا۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال بھی سنہ 71 اور 72 کے کالجوں میں ہونے والے تصادم جیسے واقعات کی سی ہی ہے۔ اپوزیشن پی ٹی آئی کے حکومت میں آتے ہیں اس بات کی جد و جہد میں مصروف تھی کہ کسی نہ کسی طرح حکومت کو چلتا کیا جائے۔ ویسے بھی کئی دھائیوں سے پاکستان میں یہ بات رواج بنتی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کسی بھی حکومت کے بنتے ہیں اس کی دم میں نمدے کسنا شروع کر دیا کرتی ہے سو اس مرتبہ بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ کچھ تو ہر اپوزیشن کی عادتوں میں یہ بات زہر کی طرح گھل چکی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو، مخالفت کرنا ہی کرنا ہے اور کچھ یوں ہوا کہ ایک ایسی حکومت جس کو پہلی بار یہ اعزاز حاصل ہوا کہ پاکستان کی تمام ایجنسیوں اور افواجِ پاکستان کا بھر پور تعاون حاصل رہا لیکن ان کی بد قسمتی یا صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے وہ ایسا فعال کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہوتا۔ یہ بد انتظامی مزید اس بات کا سبب بنی کہ اپوزیشن کی تحریک عوام میں کافی حد تک مقبول ہوتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ سابقہ حکومت کی ساکھ اداروں کی نظر میں بھی خراب ہوتی گئی۔
سابقہ حکومت کی ساکھ بھی خراب ہوئی اور اپوزیشن بھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی لیکن اگر سنہ 71 اور 72 کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا یہ کامیابی اتنی تاخیر کے بعد حاصل ہوئی کہ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی کامیاب و کامران ہوئے بلکہ اگر گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو سابقہ حکومت کی کامیابی موجودہ کامیاب ہونے والے اتحادیوں سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے۔
حالات ایسے ہو چلے تھے کہ سابقہ حکومت حقیقتاً عوام کے سامنے منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔ عوام مہنگائی اور دیگر بد انتظامی کے ہاتھوں اتنے پریشان ہوچکے تھے کہ انتخابات کے دوران ان کی رہنما جہاں بھی جاتے ان کو سخت عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا لیکن اپوزشن کی تحریک اور عمران خان صاحب کے شاندار بیانیے نے شطرنج کی ساری بساط ہی الٹ کر رکھ تھی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ کسی مقام پر بھی لوگ سابقہ حکومت سے مہنگائی کا گلہ کرتے نظر نہیں آ رہے بلکہ عوامی ردِعمل کا سامنا اب موجودہ اتحادی حکومت کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر موجودہ حکومت مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اپنے سابقہ دور کے مطابق لانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو نہ صرف سابقہ حکومت کے سارے داغ دھبے صاف ہو جائیں گے بلکہ بقولِ عمران خان، وہ اور بھی خطرناک ہو کر سامنے آ جائیں گے۔
جس طرح کسی بلند مقام پر رکھے ایک تختے کی دونوں جانب کھڑے دو دشمن محض اس لئے زندہ نظر آتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی مرکر گرجانا دوسرے کی موت کا سبب بن سکتا ہے ٹھیک اسے طرح سابقہ و موجودہ دشمن پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی خفیہ آنکھ نہایت دلچسپی کے ساتھ حالات کا نظارہ کر رہی ہے۔ خواہ دونوں میں سے کوئی بھی جیتے یا ہارے، انجام دونوں ہی کا درد ناک دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔