بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی تشویش کا مفہوم نظر آتا ہے

633

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی تشویش کا مفہوم مبہم نظر آتا ہے‘امریکا کو تکلیف بھارت کے روس سے میزائل سسٹم، سستا تیل خریدنے اور یوکرین تنازع پر غیرجانبدار رہنے پر ہے‘نئی دہلی کے کمیونسٹ اتحاد میں شامل ہونے کا بھی خدشہ ہے‘ واشنگٹن کے پاس بھارت کو دبائو میں لانے کیلیے انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ سے بہتر کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔ان خیالات کا اظہار رفاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیا سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نعمان انصاری، وفاقی جامعہ اردو شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی تشویش کا مفہوم کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر نعمان انصاری کا کہنا تھا کہ امریکی ادارہ جو دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق پر نظر رکھتا ہے‘ اس ادارے نے امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ بھارت کو “گہری تشویش” والے ممالک کے زمرے میں شامل کرے لیکن کیا واقعی امریکی انتظامیہ کو بھارتمیں انسانی حقوق کے معاملے پر اتنی ہی بے چینی اور تشویش ہے کہ جتنی تشویش موجودہ امریکی وزیر خارجہ اور امریکی اہلکاروں کے بیانات میں نظر آرہی ہے‘ اس سال کی انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ میں ایسا کیا ہے کہ پوری امریکی انتظامیہ اس رپورٹ کے مندرجات کو لے کر اتنا ناچی کہ گھنگرو ٹوٹ گئے جب کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے سے بھارت کا انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا ریکارڈ ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے‘ اس کو سمجھنے کے لییذرا عالمی سیاست کو دیکھیں تو 2 بنیادی وجوہات سامنے آئیںگی جس کی وجہ سے امریکا اس رپورٹ کی آڑ میں بھارت کو پابندیوں کی دھمکی دے کر دبائو میں لینا چاہتا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے حال ہی میں 5.5 بلین ڈالر کی خطیر رقم سے روس سے ایس- 400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدا ہے جس کی ڈیل2018ء میں ہوئی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت اب تک روس یوکرین تنازع پر چین کی طرح غیر جانبدار رہا ہے اور امریکی دبائو کے باوجود امریکا کی حمایت سے انکار کردیا کیونکہ چین کی بھی غیر جانبداری کی پالیسی ہے تو امریکا کو یہ فکر لاحق ہے کہ بھارت امریکی اثر سے نکل کر ” کمیونسٹ” اتحاد کا حصہ نہ بن جائے اور ایسا ہونے کی صورت میں اس وقت بھارت کے علاوہ خطے میں کوئی دوسرا ملک نہیں جو امریکی مفادات اور علاقے میں امریکی دبائو برقرار رکھ سکے اس پر مزید یہ کے امریکی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت نے روس سے کم قیمت پر نہ صرف تیل خریدا بلکہ رقم کی ادائیگی روبل (روسی کرنسی) میں کی گئی‘ ایسے میں امریکا کے پاس بھارت کو دبائو میں لانے کے لیے اس رپورٹ سے بہتر کوئی اور آپشن نہیں تھا تو اصل میں ” گہری تشویش” انسانی حقوق کی پامالی پر نہیں بلکہ بھارت کی من مانی اور آزادانہ فیصلوں پر ہے ورنہ آسام سے لے کر بنگال تک اور دہلی سے لے کر کشمیر تک مودی حکومت نے کبھی انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار رائے کی پروا نہیں کی۔ ڈاکٹر رضوانہ جبیںکا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ انسانی حقوق اس کا اندرونی معاملہ ہے‘ اس میں کسی کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہے‘ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے‘ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارت کو بھی امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر تشویش ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کی گئی ہے ‘ جن کو روکنے کی بھارتی حکومت کی کوششوں کے باوجودذمہ داران کو سزا دینے میں مشکلات کا سامنا رہا‘ انفرادی معاملات میں تحقیقات ہو جاتی ہے لیکن فیصلوں کے نفاذ میں سست روی کا شکار ہے‘ عدالتی نظام کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے ملزمان کو سزائیں نہیں ہو پاتیں‘ گویا اس رپورٹ میں بھی بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت کے مطابق ایسے بیانات کا بھارت امریکا تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، جبکہ امریکا نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل رکھا ہے جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش ناک صورتحال ہے۔ اس وقت امریکا میں تقریباً 40 لاکھ بھارتی باشندے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں‘ عالمی حکمت عملی کے لیے بھی بھارت اور امریکا کے درمیان شراکت داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امریکی رپورٹ کے شواہد کے باوجود بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی تشویش کا مفہوم مبہم نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بھارت میں ہونے والی گہری تشویش کوئی نئی بات نہیں ہے‘ یہ گزشتہ3 سال سے خود امریکی کانگریس کے مقدرہ کمیشن نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بالخصوص مذہبی آزادی کی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے بھارت پر پابندیاں عاید کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت کے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند اتحادی ہندو تنظیمیں فرقہ واریت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘ اس صورتحال سے بھارت کے دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں‘ اس کے علاوہ بھارت کے متعدد کالے قوانین مثلاً شہریت کے متنازع قانون (NRC) کی وجہ سے تمام اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگرچہ کانگریس کے اس کمیشن کی حقیقت نیم سرکاری ہے اور امریکی حکومت اس کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے تاہم امریکا پر کافی عرصے سے تنقید ہو رہی ہے کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اس نے دہرا معیار اختیار کیا ہوا ہے‘ پاکستان، چین اور افغانستان کے حوالے سے تو امریکا فوراً ایکشن لے لیتا ہے تاہم فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر امریکا محض زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ عالمی تنظیموں بالخصوص جنیوا سائیڈ واچ، اقوام متحدہ کی حقوق انسانی سے متعلق رپورٹ، یورپی یونین کی رپورٹ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ کے ساتھ امریکا کی اندرونی رائے عامہ کا بھی جوبائیڈن انتظامیہ پر دبائو ہے کہ وہ بھارت کے حوالے سے دہرے معیار ختم کرے اور اپنے مخصوص معاشی مفادات کے تحفظ کے بجائے انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائے‘ اس سے امریکا کا بین الاقوامی امیج اچھا ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس بات کا امکان کم ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ مذہبی آزادی کے کمیشن کی سفارشات پر عمل کرے تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ امریکا میں اس ضمن میں مسلسل بات ہو رہی ہے اور جوبائیڈن انتظامیہ پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔