سودی نظام کا خاتمہ

557

وفاقی شریعت عدالت نے 19سال کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد ودیگر پارٹیوں اور شخصیات کی جانب سے سودی نظام کے خلاف دائر درخواستوںکا فیصلہ سنا دیا۔ جس کے مطابق سود کے خلاف سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوںکو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت بھی دی گئی ہے۔ عدالت نے فیصلے میں 31دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا ہے۔ شریعت عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839ء اور یکم جون 2022 سے سود سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمے داری ہے۔ ملک سے ربا کا ہر صورت میں خاتمہ کرنا ہوگا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور بینکوںکا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔ بینکوںکا ہر قسم انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، ربا مکمل طور پر اور ہر صورت میں غلط ہے۔ عدالت نے کہا کہ دو دہائیوں کے باوجود حکومت کی جانب سے وقت مانگنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ چین بھی سی پیک کے لیے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے۔ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے۔ عدالت نے حکومت کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کو سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ ڈپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ 320صفحات پر مشتمل فیصلے کے احکامات پر مشتمل حصہ جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے پڑھ کر سنایا۔
ملک میں سودی نظام کے خاتمے کے لیے پہلی درخواست 30جون 1990 کو مرحوم قاضی حسین احمد کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ مجموعی طور پر 118درخواستیں تھیں جن پر اس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سرپرستی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور جسٹس عبیداللہ نے پہلا فیصلہ 14نومبر 1991 کو سنایا تھا۔ 700زاید صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں وفاقی شریعت عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ 30اپریل 1992 تک ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت کی وفاقی حکومت نے شریعت عدالت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تاہم عدالت عظمیٰ میں وفاق کی اپیل 1999 تک زیر التوا رہی۔ 23دسمبر 1999 کو عدالت عظمیٰ نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 23 جون 2000ء تک شریعت عدالت کے فیصلے کو یقینی بنائے۔ تاہم وفاقی حکومت نے پہلے تو عملدرآمدکی مدت میں اضافے کی درخواستیںدائر کی لیکن بعد میں سال 2002ء میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔ جس پر عدالت عظمیٰ کے5رکنی شریعت ایپلٹ بینچ نے 24جون 2002 کو وفاقی شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کر کے کیس واپس ریمانڈ کرتے ہوئے شریعت عدالت کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ کیس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیکر دوبارہ فیصلہ کیا جائے۔ تقریباً 20سال قبل جب یہ مقدمہ ریمانڈ کر کے بھجوایا گیا اس وقت سے اب تک 9چیف جسٹس عہدوںسے سبکدوش ہیں۔ 10ویں چیف جسٹس موجود ہیں۔ اس عرصے کے دوران عدالت کی طرف سے کیس میں مقررکیے گئے کئی معاونین اور کئی درخواست گزاردار فانی سے کوچ کر گئے۔
27رمضان المبارک کو اسلامیان برصغیر نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی اور اب وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے سے استعماری نظام سے جان چھڑانے کا راستہ بھی اسی مبارک دن کے موقع پر ہموار ہوگیا ہے۔ وفاقی شریعت عدالت نے حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کے لیے پانچ سال کا عرصہ دیا ہے جو کہ معیشت کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے حکومت کو چاہیے کہ فیصلے کی روح کے مطابق سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ پاکستان کے دستور میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی چیز اس ملک میں قرآن وسنت کے خلاف نہیں چل سکتی لیکن اس کے باوجود اس ملک میں سود کا نظام جاری رہا اور تو اور نواز شریف حکومت تو سود کے خلاف ہونے والے فیصلے کے خلاف عدالت میں بھی گئی اور انہوں نے عدالت عظمی میں اسے چیلنج کر کے اس پر حکم امتناع بھی حاصل کر لیا تھاجس کی وجہ سے آج تک نواز شریف اللہ کی پکڑ میں ہیں۔مغرب کو خوش کرنے کے لیے ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا اور سود کے خلاف فیصلے پر عدالت جانا نواز شریف کا ایسا جرم ہے کہ جس کی معافی اللہ پاک کی ذات ہی انھیں دے سکتی ہے۔نومنتخب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ذمے داری ہے کہ وہ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر سودی نظام کے خاتمے کے لیے اسلامی معیشت کے ماہرین، علماء کرام، وکلا، مذہبی اسکالرز اور ربا فری بینک چلانے والے لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے اور ملک کے نظام معیشت کو اسلام کے مطابق چلا کر قیام پاکستان کے حقیقی خواب کو شرمندہ تعبیر کرے۔ملک بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ 2013ء سے تک بیرونی قرضے 24ارب ڈالر تھے جو کہ اب 50ارب ڈالرکے قریب پہنچ چکے ہیں۔پاکستان کے بجٹ کا نصف سے زیادہ قرضوںپر سودکی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے۔اس سودی سرمایہ داری نظام کی وجہ سے معیشت تباہ حال اور قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت،پسماندگی،بے روزگاری اور مہنگائی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اللہ کے نظام کے بجائے سود کی صورت میںاس کے ساتھ جنگ کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔سودی نظام کا خاتمہ ہی پاکستان کی بقاء اور سلامتی کی ضمانت ہے۔