ضمانت پر رہا قانون ساز

439

موجودہ نظام تخلیق کرنے پر شیطان نے خود کو کس طرح شاباشی دی ہوگی، کس طرح خوشی کا اظہار کیا ہوگا؟ جوتے میں شراب پی کر، ہنس کے سرکو جھٹک کر، جھوٹی اکڑ فوں دکھا کر یا پھر روکھے سوکھے جنک فوڈ کھاکر پیپسی اور کوک پی کر، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اسی لیے یہ جان کر حیران ہونے کی ضرورت نہیںکہ نئی حکومت میں جس 34رکنی کابینہ نے حلف اٹھایا ہے ان میں سے 24ارکان جو ہمارے لیے قانون سازی کریں گے، ضمانت پر باہر ہیں۔ عمران خان کی عذاب ناک حکمرانی کے خلاف حل کی تلاش میں کامیابی کے بعد عین ممکن ہے وہ ان مقدمات کا خاتمہ کروادیں جن پر وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وزیردفاع پرویز خٹک بھی مقدمات میں باقاعدہ اشتہاری تھے جب انہوں نے حلف اٹھائے تھے۔ کسی عدالت میں اتنی ہمت ہوئی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے۔ عدالتوں کی طرح عوام کا کام بھی یہ ہے کہ ان معاملات کو اس نظام پر چھوڑدیں اور نئی حکومت میں ضمانت پر باہر ملزموں کو حکمرانی کرتے دیکھ کر خوشیاں منائیں۔ پچھلی مرتبہ یوتھیے خوشی منارہے تھے اس مرتبہ خوشی منانے کا حق شہباز اینڈ کمپنی کا ہے۔ نئے اراکین اسمبلی پر عمران خان نے جھوٹے مقدمے بنوائے تھے۔ عمران خان پر پچھلی حکومت نے جھوٹے مقدمے بنوائے ہوں گے۔ مقدمات سچے بھی ہوتے تو کسی نے کیا اکھاڑ لینا تھا۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ اگر کسی کی احسان مند ہوسکتی ہے تو وہ پرزنر وین ہے جو قومی اسمبلی کے باہر لاکر کھڑ ی کی گئی تھی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی حمزہ شہباز کی کامیابی کو متنازع بنانے کے لیے چودھری پرویز الٰہی نے جس طرح غنڈوں کو اسمبلی میں راہ داری دی وہ بہت کارگر ہوسکتی تھی اگر مقابل پارٹی اس میدان میں ان سے کہیں آگے نہ ہوتی۔ اس نظام میں سب چلتا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ یہی جمہوریت کا انتقام ہے۔
دو ڈھائی مہینے پہلے کی بات ہے ایسی ہی ایک بات کہہ کر سنگاپور کے وزیراعظم لی شین لانگ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا ناریل چٹخادیا تھا جب انہوں نے کہا تھا بھارتی پارلیمنٹ کے آدھے سے زیادہ ارکان مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ مزید رگڑا لگاتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ آج نہرو کا بھارت ایسا ہوچکا ہے کہ لوک سبھا میں قتل اور خواتین سے زیادتی کا ریکارڈ رکھنے والوں کی بھرمار ہے۔ اس بیان پر مودی سرکار اتنی برہم ہوئی کہ سنگاپور کے سفیر کو طلب کرلیا۔ مودی کی مجبوری تھی کہ سفیر کو طلب کرنا پڑا۔ سفیروں کو بھارتی مسلمانوں کی طرح مارا، جلایا اور قتل نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی ایک بدذات جمہوریت کش تنظیم اے ڈی آر (ایسوسی ایشن آف ڈیمو کریٹک ریفارمز) نے بھارتی جمہوریت کی کھوپڑی کے بھوسہ خانے میں آگ لگاتے ہوئے مزید انکشاف کیا کہ 2019 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے 539 اراکین پارلیمنٹ میں سے 233 یعنی 43فی صدکے خلاف مجرمانہ مقدمات زیرالتوا ہیں۔ 2014 کے الیکشن کے مقابلے میں 2019 میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد میں 26فی صد اضافہ ہوا۔ اے ڈی پی آر کے مطابق مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سب سے زیادہ 116ارکان بی جے پی کے ہیں جن میں چار مرکزی وزراء بھی شامل ہیں۔ بی جے پی کے علاوہ یہ سعادت کانگریس کے29، جنتادل یونائیٹڈ کے 13، ڈی ایم اے کے 10اور ترنمول کانگریس کے 9ارکان کو بھی حاصل ہے۔
پاکستان میں بھی جمہوریت کا کاروبار جرم اور سیاست کی پارٹنر شپ سے چل رہا ہے۔ جہاں ملزموں کو پولیس طارق روڈ سے شاپنگ کراکر فرار کروا دے۔ اسپتال میں برسوں قتل کا مجرم وی آئی پی سہولتوں کے ساتھ رہتا ہو وہاں جمہوری حکومت کا زیرجامہ کون دھونے کی ہمت کرسکتا ہے۔ یاد رہے زیرجامہ دھونے کے لیے پہلے اتروانا پڑتا ہے۔ 2013 میں کراچی عزیز آباد سے تاریخ کا اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ برآمد ہوا تھا۔ یہ کس کا حسن کرشمہ ساز تھا کہ آج تک ایف آئی آربھی نہ کٹ سکی۔ پاکستان کی تیسری بڑی جمہوری جماعت ایم کیو ایم جن کانوں، لنگڑون، ٹنڈوں اور کمانڈئوں کی سہولت کاری سے چلتی تھی، کس سے پوشیدہ ہے۔ اسٹریٹ کرائمز، اغوا، کمیشن اور کرپشن سیاست اور جرم کا ہاتھ پکڑے بغیر واش روم تک نہیں جاسکتے۔ 2013 میں کراچی میں جرائم کے خلاف ایک بڑا آپریشن ہوا تھا۔ اعلیٰ سطحی اپیکس کمیٹی نے بڑی وضاحت کے ساتھ سیاسی مجرموں کی نشاندہی کی تھی مگر سیاسی مصلحتیں جمہوری فلش کو صاف کرنے کی جرات نہ کرسکیں۔ ایم کیو ایم میں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی عزت اور آئو بھگت تھی اور علاقہ اور تھانہ کنٹرول کرنے والے سیکٹر انچارج کا کیا رتبہ اور مقام تھا۔ نائن زیرو میں چند گھنٹے گزار لینے کے بعد ہی اس کا اندازہ ہوجاتا تھا۔ لیاری گینگ وار چند تھانوں کے شاندار کردار اور سیاست کی بصیرت افروزی سے بڑھ کر کیا تھا۔ کس کو نہیں معلوم کہ پیپلز پارٹی لیاری میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ عذیر بلوچ کی مرضی اور دبائو پر دیتی تھی۔ ڈالر گرل کی زینت، رسوخ اور آنیاں جانیاں کس سیاسی شخصیت کے ٹیم ورک کا نتیجہ تھی، چاروں طرف پھیلے ہوئے سیاست اور جرم کے کس جال کا حصہ تھیں؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
ایک سابق صدر غلام اسحق مرحوم جن کی گردن پر دو وزرائے اعظم کی برطرفی کا خون تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف، اپنی قانون پسندی اور آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کے لیے مشہور تھے۔ دیانت دار ایسے کہ بدترین مخالف بھی ان کے کردار پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے، قومی خزانے کا وہ احساس کہ ایوان صدر کی فالتو بتیاں بجھاتے پھرتے تھے۔ ان کے دور اقتدارمیں کراچی میں جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی تھی انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تو سی پی ایل سی کے سربراہ نے کہا ’’سر بہت سی وارداتوں کے تانے بانے طاقت ور لوگوں تک جارہے ہیں اجازت ہوتو چھاپے مارے جا ئیں‘‘۔ ان طاقتور لوگوں میں خود ان کے داماد عرفان اللہ مروت بھی خبروں کا حصہ تھے۔ مرحوم غلام اسحق کی نظر کرم نے ہی بے نظیر کو تنگ کرنے کے لیے جام صادق کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ زمینوں پر قبضے کی جن کی عادت کی وجہ سے مزار قائد بصد التماس بچا کے رکھا جاسکا تھا۔ انہوں نے ہی الطاف بھائی کو فرار ہونے میں مدد دی تھی۔ جنرل شفیق الرحمن کو وفاق کی طرف سے تحقیقات کے لیے کراچی بھیجا گیا تو جام صادق نے انہیں ہوٹل سے باہر ہی نہیں آنے دیا تھا۔ متاثرین نے ہوٹل میں جا جاکر اپنے بیان ریکارڈ کروائے تھے۔ اندازہ کیجیے کس کس لیول کے جرائم پیشہ لوگ اس نظام میں کتنے بڑے بڑے عہدوں پر ماضی میں بھی موجود رہے تھے اور آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ جنرل شفیق نے جو رپورٹ مرتب کی تھی اس میں بھی جرائم کے کھرے طاقتور لوگوں کے گھروں تک جاتے تھے جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا۔
اس نظام سیاست میں جرائم اور سیاست ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ بڑے بڑے ٹیکس چور، صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے اور انڈرورلڈ سے منسلک افراد سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔ کالے دھن اور پیسے کے بے دریغ استعمال کے ذریعے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں، اپنے خلاف مقدمات ختم کرواتے ہیں، قانونی خامیوں کا سہارا لے کر باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی ان کاسرمایہ گردش کرتا ہے جس کی بنا پر وہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اس نظام میں کسی نظریہ، فکر اور اصول کی بناپر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ کامیابی کے لیے بے پناہ سرمایہ درکار ہوتا ہے جو جرائم پیشہ افراد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی سرپرستی کے بغیر یہ نظام کسی تاریک براعظم میں بھی نتائج نہیں دے سکتا۔ اور ہاں اپنے ایوانوں میں ضمانت پر باہر قانون سازوں کی موجودگی سے خوامخواہ ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ایک مستند جرائم پیشہ شخص ہیں جو جنگی جرائم میں بھی ملوث رہے ہیں۔ امریکا نے ان کے داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی جب جمہوریت کی زلفیں ان کے شانوں پر دراز ہوئیں تب یہ پابندی ہٹی اور انہوں نے ایک معزز وزیراعظم کی طرح امریکا کے دورے آغاز کیے اور جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ امریکی صدور کو جھپیاں ڈالی تھیں۔