گوئبلز پاکستان کی سڑکوں پر)آخری قسط(

633

عمران خان کی مبینہ امریکی سازش کا اصل ہدف صرف سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ فوجی قیادت اور ہر وہ ادارہ ہے جو ان کی سازشی تھیوری اور جھوٹے بیانیے کا مخالف ہے۔ فوجی قیادت پاکستان میں مارشل لا لگاتی رہی ہے، سول حکومتوں کو برطرف اور ان کے خلاف سازش کرتی رہی ہے، امریکا کی حلیف اور معاون رہی ہے۔ عمران خان نے فوجی قیادت کے باب میں ان چند سچائیوںکو مبینہ امریکی سازش کے جھوٹ کے سمندر میں اس طرح مکس کیا ہے کہ ان کا پروپیگنڈہ سچائی کے دیوتا کا بیان لگنے لگتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی نے کچھ نہیںکیا ان کی حکومت اپنی ہی نااہلی کے بوجھ سے گری ہے۔ ان کی حکومت کے خاتمے کا صرف ایک شخص ذمے دار ہے اور وہ خود عمران خان ہے۔ سچائی یہ ہے کہ دھرنوں سے لے کر بڑے بڑے جلسے آرگنائز کرنے، الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں لانے، آرٹی ایس بٹھانے، سیٹیں دلوانے، اتحادیوں کو حکومت کا حصہ بنوانے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ترتیب دینے، اپوزیشن کو منتشر رکھنے میں حیران کن حد تک اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ایک پیج پررہی۔ حتیٰ کہ جب عمران خان کی نا اہلی سے روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی بے پناہ مہنگائی نے، اشیاء صرف کی قلت نے، بے روزگاری اور آمدنیوں کے گھٹنے نے، پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عوام کی چیخیں آسمان تک بلند کردیں اسٹیبلشمنٹ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ جب معیشت تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے زمین سے لگ گئی، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بے حیثیت ہوتا ہوتا دوسو روپے کے قریب پہنچ گیا، اندرون و بیرون ملک حکومتی قرضوں نے پچھلے ستر برسوں کے ریکارڈ توڑ دیے، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی آکسیجن پائپ لائن کے بغیر ملک چلنا ناممکن دکھائی دینے لگا، آئی ایم ایف سے انتہائی ذلت آمیز طریقے سے اسمبلی میں بل پاس کرواکر بلندترین شرح سود پر قرض لیا گیا، اسٹیٹ بینک آئی ایم کی تحویل میں چلا گیا، آئی ایم ایف کا نمائندہ گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے لا کر بٹھا دیا گیا تب بھی اسٹیبلشمنٹ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اکثر حکومتی وزیروں مشیروں کی کرپشن کے قصے اندرون و بیرون ملک گو نجنے لگے، حکومت پر اندرون وبیرون ملک جرمانے ہونے لگے، پونے چار سال میں کوئی منصوبہ ترتیب نہیں دیا گیا بلکہ پچھلے منصوبوں پر بھی کا م روک دیا گیا، سی پیک کے بیش تر منصوبے حسرت کی داستان بن گئے، کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان وہاں پہنچ گیا جہاں کبھی نہ پہنچا تھا تب بھی اسٹیبلشمنٹ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ عمران خان کی منتقم مزاجی نے ایک ایک اپوزیشن رہنما کو پکڑ پکڑ کر جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ٹھونس دیا، بڑے بڑے میڈیا سیلز کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گیا، پرنٹ میڈیا کا دم گھونٹا جانے لگا، صحافتی ادارے ڈائون سائزنگ پر مجبور کردیے گئے، نامور صحافیوں کو ہراساں کرنے، پکڑے دھکڑنے اور نو کریوں سے نکالے جانے لگا اسٹیبلشمنٹ تب بھی خاموشی سے دیکھتی رہی۔ جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا، دنیا پاکستان سے دور ہونے لگی، دفاعی ضروریات پورا ہونا مشکل دکھائی دینے لگا، سیکورٹی اور ڈیفنس کے آگے سوالیہ نشان بننے لگے اسٹبلشمنٹ تب بھی خاموشی سے دیکھتی رہی۔ لیکن۔ جب عمران خان نے فوج کے معاملات میں دخل دینا شروع کیا۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے نوٹیفکیشن میں مداخلت، دستخط میں غیر ضروری تاخیر اور فوج کو بطور ادارہ مذاق بنانے کی کوشش کی۔ اسٹیبلشمنٹ تب بھی خاموش رہی۔ عمران حکومت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ صرف اتنا کیا کہ۔ عمران خان کی حکومت چلانے کے معاملات میں مدد کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ پینٹیاں بدلنے سے انکار کردیا۔ پہلی مرتبہ فوج نے بطور ادارہ طے کیا کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہے گی اور سول معاملات میں دخل نہیں دے گی۔ نتیجہ۔۔ چند ماہ میں عمران خان کی حکومت دھڑام سے آگری۔
عدلیہ بھی شروع سے عمران خان کی حکومت کی معاون رہی ہے۔ تفصیلات کا موقع نہیں۔ لیکن جب پچھلی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے سازشی خط کو جواز بناکر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا اور اپوزیشن کے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے اور عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد، نظریہ ضرورت کو دفن کرتے ہوئے ایک مکمل آئینی اور قانونی فیصلہ دیا اور ایک ایک قدم کا احاطہ کرتے ہوئے بہر صورت نو اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے اور اگلے وزیراعظم کے تقرر کا فیصلہ دیا توکوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عمران حکومت یا کوئی بھی حکومت اس فیصلے پر عمل نہ کرنے کا سوچ بھی سکتی ہے لیکن جب عمران خان اس فیصلے کے، آئین اور قانون کے بھی پرخچے اُڑاتے دکھائی دینے لگے تب اگر رات بارہ بجے سے پہلے عدالتیں نہ کھلتیں، پریزنر وین نہ لائی جاتی اور حکومت کو اپنا انجام سامنے نہ دکھائی دیتا اور وہ فوری طور پر فیصلے پر عمل کا فیصلہ نہ کرتی تو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور اس کا فیصلہ دنیا میں توقیر اور احترام کے کس درجے پر ہوتا۔ سب کو اس کی خبر ہے سوائے عمران خان کے۔ کیا ہی سادگی سے وہ ابہام کی ٹیکنیک بروئے کارلاتے ہوئے پوچھتے ہیں میں نے ایسا کیا کیا تھا جو عدالتیں رات بارہ بجے کھولی گئیں۔
پاکستان میں اسلام کے نفاذ اور اسلامی ریاست کے حوالے سے، جمہوریت کے حوالے سے، سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے، امریکی اثر رسوخ، غلامی اور نفرت کے حوالے سے، مغرب سے مرعوبیت اور اس کے سامراجی کردار کے حوالے سے، بھارت سے دشمنی اور دوستی کے حوالے سے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوجی قیادت کے کردار کے حوالے سے، زرداری، نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں کی کرپشن، جوڑ توڑ اور لوٹا ازم کی سیاست کے حوالے سے، اعلیٰ عدالتوں کے کردار کے حوالے سے، میڈیا کے حوالے سے اور بعض دوسرے حوالوں سے لوگوں میں بے پناہ شکوک، تحفظات، محبتیں اور نفرتیں پائی جاتی ہیں۔ عمران خان نے کمال یہ کیا کہ ان تمام مختلف بیانیوں کو، فکر کے سیارچوںکو سمیٹ کر ایک ایسا بڑا بیانیہ اور بڑا سیارہ تشکیل دیا ہے جس میں یہ تمام بیانیے سما گئے ہیں اور یہ سیارہ عمران خان کی ذات کے گرد گردش کررہا ہے۔ یہ سیارہ بڑی تیزی سے پھیلتا اور سب کچھ اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔ شہروں کی پڑھی لکھی، متوسط اور خوشحال کلاس، پاکستان کی پچاس سے ساٹھ فی صد جوان اور یوتھ کلاس، فوج کے ریٹائرڈ اور حاضر افسران کی گھرانے، بیوروکریسی کی گھرانے، بیرون ملک پاکستانی گھرانے یہ تمام بیانیے ان کی سوچ، فکر اور گفتگو کا حصہ رہتے ہیں۔ وہ ان حوالوں سے فکر مند رہتے ہیں۔ یہی وہ طبقے ہیں جو پہلے بھی اور آج بھی عمران خان کے حق میں ڈٹے ہوئے اور ان کے جلسوں کا حیرت انگیز کرائوڈ ہیں۔ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ کیس اور عمران خان کی کرپشن کے تمام حوالے اس بیانیے میں اس طرح گم ہوکر رہ جائیں گے کہ لاکھ ان کے حقیقت ہونے کے ثبوت دیے جائیں لوگوں کی بڑی تعداد تسلیم نہیں کرے گی۔
عمران خان کے بیانیے اور پروپیگنڈے کا حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے دائرہ اثر میں آنے کے بعد ان کی حکومت کی نااہلی، پونے چارسال پر محیط شب وروز اور وہ تمام خرابیاں جو ابتدا میں بیان کی گئی ہیں، بے معنی ہوکررہ جاتی ہیں، یاد بھی نہیں رہتیں۔ عمران خان امریکی سازش کے جھوٹ کا سہارا لے کر حب الوطنی کی، زندہ قوم کی، اتنی بڑی فکر اور آئیڈیولوجی پر بات کررہے ہیں ایسا ماحول بنارہے ہیں کہ اس کے مقابل ان کی حکومت کی نااہلی کی بات بہت حقیر معمولی اور کمترہوگئی ہے۔ وہ اپنے بیانیے کے ذریعے فوج کو گالیاں دلوا رہے ہیں، فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کررہے ہیں، نیو کلیر ہتھیاروں، دہشت گردی کی امریکی جنگ میں پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی شہادتوں، ڈرون حملوں اور ان تمام موضوعات کو زیربحث لارہے ہیں جن کی زد فوج پر پڑ رہی ہے، فوج پر اٹیک ہورہا ہے۔ ججوںکو برا بھلا کہا جارہا ہے، ان کی تصاویر پر جوتیاں ماری جاری ہیں۔ کسی کو نہیں بخشا جارہا ہے۔ عمران خان غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹس جاری کررہے ہیں۔ اپنے مخالفین کے خلاف لوگوں کو اُکسا رہے ہیں، وہ اندرونی بغاوت کا ماحول تیار کررہے ہیں۔ ابھی یہ سب کچھ ٹیسٹنگ کے مرحلے میں ہے لیکن پورا ملک انتشار، تباہی، بربادی اور انارکی کے زلزلوں کے جھٹکے لے رہا ہے۔