آخری امید جماعت اسلامی

738

پاکستانی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، وزیر اعظم عمران خان کے زیر سایہ کرپشن کا بازار گرم رہا، فرح خان جیسے کئی کرداروں نے جنم لیا، ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے پوری دنیا میں تنے تنہا کھڑے ہیں یہاں تک کہ مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ بھی ہار گئے ہیں۔ چینی، گندم، کھاد اور ادویات کے اسکینڈلز اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے دوسری طرف پاکستان کے وہ کردار جنہوں نے ہر دور میں ذاتی مفاد کے لیے وطن عزیز میں کرپشن کے بازار کو گرم رکھا اور سالمیت کو نقصان پہنچایا آج حکومت کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ عمران خان، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور ماضی کی ایک جھلک پیش کرنا چاہوں گا جس کو میری رائے نہ سمجھا جائے بلکہ تاریخ کے تناظر میں صرف واقعاتی بنیاد پر دیکھا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اور آخری امید کون سی ہے۔
اب میں تذکرہ کرنے جا رہا ہوں ان کرپٹ حکمرانوں کا جنہوں نے وطن عزیز کو لوٹا، وطن کے دو ٹکڑے کیے، کشمیر کی سودے بازی کی، کارگل جنگ میں بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ جن کے بارے میں میں شاعر نے کیا خوب کہا:
ساڈے جو ارادے تھے
کڈے سدھے سادھے تھے
ہم نے سوچ رکھا تھا
بن کے ایک دن ممبر
اکو کام کرنا ہے
ایک دو پلازوں کو
چار چھے پلاٹوں کو
پنجی تیہہ مربعوں کو
اپنے نام کرنا ہے
شکر اے خداوندا
تو نے اس نمانے کی
نِکی جِنی خواہش کو
سن لیا ہے نیڑے سے
(خالد مسعود)
سب سے پہلے تذکرہ کروں گا آصف علی زرداری کا جنہیں جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے رکن قومی اسمبلی کی خریدو فروخت احسن انداز میں کرتے ہیں، ان کا تاریخی پس منظر یہ ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیر اعظم بننے کے سبب آصف علی زرداری فرسٹ جنٹل مین کے خطاب کے حقدار ٹھیرے۔ فرسٹ جنٹل مین کی حیثیت سے اپنے سیاسی اثر رسوخ کا اتنا فائدہ اٹھایا کہ 1990 ہی میں اس حکومت کے خاتمے کا سبب بنے اور 10 اکتوبر 1990 کو اغوا، بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں جیل جا بیٹھے۔ 25 جولائی 1991 کو سنگاپور ائر لائن کی فلائٹ نمبر 117 کو اغوا کیا جاتا ہے اور ہائی جیکر مطالبہ کرتے ہیں کہ آصف علی زرداری کو جیل سے رہا کیا جائے یہ ایک علٰیحدہ بات ہے کہ سنگاپور کی گورنمنٹ نے مطالبات ماننے کے بجائے کمانڈو ایکشن کے ذریعے مسافروں کو بازیاب کروا لیا۔ اسی دوران عبوری وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا اعلان کیا اور قوم کو بتایا کہ ان کے دور حکومت میں ہر منصوبے کے آغاز سے قبل یا قرضے کی ہر درخواست کی منظوری سے قبل دس فی صد حصہ لازمی طور پر آصف علی زرداری کو دیا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 1993 میں جب ان کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس دوران بھی ان پر لگنے والے الزامات اور قائم ہونے والے مقدمات کا سلسلہ نہیں رکا اس دفعہ بھی ان کی حکومت تقریباً دو سال ہی چل سکی۔ اس دور حکومت کی اہم بات آصف علی زرداری اور ان کے سالے مرتضیٰ بھٹو کے درمیان ہونے والی لڑائی تھی جس کا خاتمہ ستمبر 1996 کو ہوا جب پولیس نے مرتضیٰ بھٹو کو ان کے سات ساتھیوں سمیت ان کے گھر کے سامنے ہی مار ڈالا ان کے قتل کا الزام نصرت بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے آصف علی زرداری ہی پر لگایا اور اسی لیے مرتضیٰ کے مرنے کے سات ہفتوں بعد ہی صدر فاروق لغاری نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اس بار بھی سبب بنے آصف علی زرداری۔ 1996 میں ان کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اس بار بھی ان پر الزامات کی فہرست کوئی نئی نہ تھی بلکہ اس میں اغوا کے ساتھ ساتھ قتل کا اضافہ بھی ہو گیا تھا اور کرپشن تو پہلے ہی ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ اس دوران ایک بار سینیٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے اور 2005 میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کے سبب آزاد ہو کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے دبئی چلے گئے اور پھر 27 دسمبر 2007 کو بی بی کی وفات پر واپس آئے اور کو چیئرمین پیپلز پارٹی کی سیٹ سنبھال لی۔ ان کے سوئس بینک میں موجود اکاونٹ، سرے محل، اور یہ سب مقدمات ان کے سیاسی ماضی کا ثبوت ہیں۔ ان کے دور حکومت میں ملک کا پیسہ لوٹ کر جائداد بنا لیں لیکن ملک کا بچہ بچہ مقروض ہو گیا اور غربت گلیوں میں نظر آتی ہے جیسے شاعر نے کہا:
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
دوسرا کرپشن میں بڑا نام ہے نواز شریف کا جنہوں نے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوبار اقتدار کے دوران 418 ملین ڈالر کا مالی فائدہ کے اٹھایا۔ امریکی مصنف رے مونڈ ڈبلیو بیکر کی کتاب کیپیٹلزم اچیلیس ہیل میں انکشاف سامنے آگیا یہ کتاب نواز شریف سمیت تاریخ کے سب سے زیادہ تسلط رکھنے والے سیاسی خاندانوں کی بدعنوانی اور ان کی جائداد، اور بے تحاشا دولت جمع کرنے کے بارے میں ہے۔ ان کی پارٹی سسٹم میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح اپنی اولاد کے علاوہ قیادت کسی دوسرے پارٹی لیڈر کو منتقل نہیں ہو سکتی۔ اٹل بھاری واجپائی اور نریندر مودی سے ذاتی تعلقات ان کی حکومت کے ایک خاتمے کی وجہ بنی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف، شہباز شریف تینوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کا پیسہ باہر کے ممالک بھجوایا جس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ آف شور کمپنیوں میں عمران خاں، آصف علی زرداری، نواز شریف اور ان کی اولاد تمام شامل ہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں ان امور کی جو پاکستان کی تباہی کا سبب بنے، جس کی مماثلت پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں پائیں گئیں۔ جس کا وجہ بھی یہ تینوں حکمران بنے۔
تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا راستہ ہوتی ہے لیکن تینوں پارٹیوں نے اس شعبے پر توجہ نہیں دی یہ ہی وجہ ہے آج 2 کروڑ پچیس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
غربت کا نعرہ تو سب نے لگایا لیکن ان کے ادوار میں غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا آج 7کروڑ 60 لاکھ لوگ سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تینوں ادوار میں سودی معیشت پر انحصار کیا گیا جس کا نتیجہ ہے 2022 پاکستان 51 ٹریلین روپے کا مقروض ہے۔
پاکستان ہر آئے دن کرپشن میں ترقی کر رہا ہے جس کا نتیجہ ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانیاں کے بارے میں 2022 میں سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گِر کر 140 تک پہنچ گئی ہے۔
تینوں ادوار کے اندر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے آج جہاں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے وہاں سے مایوسی نظر آنے لگی ہے۔
ان تینوں پارٹیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے 1971 میں پاکستان کے ٹکڑے کرنے اور بنگلا دیش بنانے میں اہم کردار کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کارگل کی شکست اور پاکستان تحریک انصاف نے مقبوضہ کشمیر کی سودے بازی میں اہم کردار ادا کیا۔
2 کروڑ 25 لاکھ افراد بیروزگار ہیں تینوں پارٹیوں نے اس کا کوئی لائحہ عمل نہیں دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد اسلام فلاحی ریاست کا قیام تھا کرپٹ اور بد دیانت سیاستدانوں کی وجہ سے آج ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اس کا حل کیا ہے کون سی پارٹی ہے جس میں دیانتدار اور ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں جو ملک کی معیشت، سیاست، داخلہ، خارجہ امور، انرجی، پلاننگ حتیٰ کہ تمام امور کو بہتر چلانے کا حل رکھتی ہے وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔
پاکستان کو جب بھی قربانی کی ضرورت پڑی تو جماعت اسلامی نے پیش کی۔ 1971 میں البدر اور الشمس نے 10,000نوجوانوں کی قربانی دی ہم کہ سکتے ہیں اگر یہ قربانی نہ دی جاتی تو شاید پاکستانی فوج 90,000 کی تعداد جس نے ہتھیار پھینکے تھے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتی۔
جماعت اسلامی کے سیکڑوں ارکان و کارکنان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے رکن رہے مگر کسی کے دامن پر کرپشن، کمیشن، اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا بنیادی مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم مقصد جس کے لیے ہمارے بڑوں نے بے انتہا قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک کہ یہاں مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی و فلاحی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔ ہمیں امید ہے کہ قوم اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دے گی اور پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا عزت و وقار دوبارہ حاصل کر سکے گا۔ جماعت اسلامی نے 1947 سے 2022 تک ایسے پیشہ وارانہ مخلص اور دیانت دار افراد پیش کیے جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ چند ایک کو اس لیے پیش کرنا چاہوں گا تاکہ لوگوں کا اعتماد قائم ہو یہ مسلکی مذہبی جماعتوں کی طرح کوئی جماعت نہیں ہے بلکہ دنیا کے امور چلانے کے لیے جدید علوم سے آراستہ ایک بہترین ٹیم موجود ہے۔ جس کے پیچھے سید ابو الاعلیٰ مودودی کا لٹریچر موجود ہے جس سے ترکی کے صدر طیب اردوان نے رہنمائی حاصل کی، اگر بلدیاتی نظام کی بات کی جائے تو کراچی کو جب روشنیوں کا شہر کہتے تھے اس وقت جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے مئیر تھے۔ عبدالستار افغانی کا پہلا دور 1979سے 1983 تک رہا جس میں انہوں نے کراچی کے شہریوں پر دو بڑے احسانات کیے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بلدیہ سے کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا ور یہ کام کرکے دکھایا۔ شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور اس عہد کو اس طرح پورا کیا کہ چند کروڑ روپے کے بلدیہ کراچی کے بجٹ کو صرف چار سال میں سو ارب تک پہنچا دیا۔ عبدالستار افغانی کا دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کے تمام امیونٹی پلاٹس کا سروے کرایا اور ان کی چار دیواری تعمیر کروا دی۔ اس طرح اہل کراچی کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضہ مافیا سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1979سے 1983 تک کا دور شہر کی بلدیاتی تاریخ کا سنہری دور ہے کہ ایک طویل عرصے سے شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں پر بیوروکریسی قابض تھی۔ لوگ باگ جب دھڑا دھڑ سڑکیں تعمیر ہوتے، چوراہے بنتے، سگنلز نصب ہوتے، سیوریج کی لائنیں پڑتے، تاریک گلیوں کو روشن ہوتے، پارکس بنتے، کراچی کے پہلے اوور ہیڈ برج کی تعمیر کا آغاز ان ہی کے دور میں ہوا۔ مشرقی پاکستان سے اورنگی ٹاؤن میں آکر آباد ہونے والے مہاجرین کی بستیوں کو کے ڈی اے میں شامل کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ عباسی شہید اسپتال میں کئی اہم شعبوں کا قیام، تیموریہ لائبریری کا قیام، عائشہ منزل کے قریب اسلامک سینٹر کا قیام، پانی کو بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا آغاز، کشمیر اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، 133کچی آبادیوں کو مستقل کرنے کا عمل، صادقین آرٹ گیلری کا قیام اسپورٹس کے تمام رجسڑڈ اداروں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا اعلان۔ جامعہ کراچی کو ہرسال ایک بس کا تحفہ، لیاری جنرل اسپتال کا قیام، کراچی میں پہلی بار گنجان آباد علاقوں میں گندی گلیوں کی پختگی کا مرحلہ، کراچی کی اہم شاہراہوں اور چورنگیوں پر اسلامی وثقافتی فن تعمیر کا کام، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ملکیتی زمینوں کے گرد چاردیواری کی تعمیر کا آغاز سمیت سیکڑوں امور انجام پائے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے عبدالستار افغانی نے ایک بہت بڑی تفریح گاہ سفاری پارک قائم کی۔ اس پروجیکٹ پر خود انہیں بہت فخر تھا۔ کچی آبادیوں کو، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ان کو مالکانہ حقوق دلوائے۔ غریب ہی غریب کا درد جانتا ہے، جب ہی تو وہ بابائے کراچی کہلائے۔ اپنی میئر شپ کے دوران اپنے علاقے لیاری کے لیے انہوں نے دو بنیادی کام کیے۔ ایک تو لیاری جنرل اسپتال، جو بالکل تباہ ہوگیا تھا، بلکہ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق سے پانچ کروڑ روپے کی رقم منظور کرائی، جو اْس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ اس کے سامنے انہوں نے لیاری انٹرنیشنل فٹ بال گراؤنڈ تعمیر کرایا۔ جب میئر منتخب ہوا تو لیاری جیسے پسماندہ علاقے میں 60گز کے چھوٹے سے فلیٹ کی چوتھی منزل پر رہائش پزیر تھا اور جب میئر شپ سے فارغ ہوا تب بھی وہ اسی فلیٹ کا باسی اور مکین تھا۔
جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان میدان میں آئے تو دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ 4سال کی مختصر مدت میں کراچی کا بجٹ معجزانہ طورپر 6ارب سے بڑھ کر ریکارڈ 42ارب تک پہنچ گیا۔ سڑکوں پر پہلی بار 300 کے قریب بڑی گرین بسیں رواں ہوگئیں۔ 18ماڈل پارکس سمیت 300 پارکس اور300 پلے گرائونڈز کی ازسرنو تعمیر کی گئی 38 نئے کالجز بنائے گئے۔ نعمت اللہ خان اہل کراچی کو جدید سہولتوں سے آراستہ امراض قلب کے اسپتال کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارڈ کا تحفہ دیا۔ کے ایم ڈی سی فیزٹو تکمیل کو پہنچا ایف ٹی سی فلائی اوور مکمل ہوچکاتھا شاہراہوں قائدین اور شاہراہ فیصل فلائی اوور کا افتتاح ہورہا تھا لیاری ایکسپریس وے اور ناردن بائی پاس جیسے میگا پروجیکٹس پر تیزی سے کام جاری تھا سہراب گوٹھ فلائی اوور، قائدآباد فلائی اوور اور سب سے بڑھ کر کورنگی تک شاہ فیصل، ملیر ریوربرج پر تعمیر کراچی پروگرام کے تحت کام کا آغاز ہوا حسن اسکوائر فلائی اوور، کارسازفلائی اوور اورغریب آباد انڈر پاس کا سنگ بنیاد رکھا۔ کلفٹن انڈر پاس پر کام کا آغاز ہوا اسی عرصے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا عظیم منصوبہ کے۔ تھری شروع ہوا تو شہریوں کو کروڑوں گیلن پانی میسر آیا۔ جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے میں سمجھتا ہوں کے تھری منصوبہ ان میں سب سے اہم منصوبہ تھا۔ راشد منہاس روڈ، جہانگیر روڈ، ماری پور، ڈالمیا روڈ، مہران ہائی وے، ابن سینا روڈ، مائی کلاچی روڈ اور شاہراہ اورنگی سے درجنوں بڑی سڑکوں کی تعمیر کی گئی سفاری پارک کا سفاری ایریا 34سال میں پہلی بار کھلا اور چئیر لفٹ کی تنصیب کا کام مکمل کیا گیا، نعمت اللہ خان نے شہر کے لیے 29 ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا۔ کراچی میں انقلابی تبدیلیاں رونمائی ہوئیں تو نعمت اللہ خان کا چرچا دنیا بھر میں ہونے لگا ورلڈگیزڈاٹ کام نے 2005 میں بہترین مئیر کے مقابلے کے لیے پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت اللہ خان کو شارٹ لسٹ کیا اور اعتراف کیا کہ اگر نعمت اللہ خان مقابلے کے قوانین کے مطابق اکتوبر 2005 تک مئیر رہ جاتے تو دنیا کے 10بہترین میئرز کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھے۔
ملکی سیاست میں پاکستان کی تاریخ میں معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش میں پروفیسر خورشید 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی رہے ہیں۔ وہ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے ہیں۔ 1985،1997 اور 2002 ء میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔ پہلی مرتبہ اسلامی معاشیات کو بطور علمی شعبہ کے ترقی دی۔ اس کارنامے کے پیش نظر 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ عطاکیا گیا۔ آپ کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اسلامی اقتصادیات، مالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انہیں جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس لاربوٰ یو ایس اے پرائز دیاگیا۔
عنایت اللہ خان، وزیر بلدیات خیبر پختون خوا رہے، ان کی کارکردگی پر وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا، تمام وزراء میں ان کی کارکردگی سب سے بہتر رہی، حال ہی میں اپوزیشن نے انہیں وزارت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے یہ کہ کر ٹھکرا دی میں کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنوں گا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان، جنہوں نے سینیٹ کے اندر پاکستان کی نظریاتی جدوجہد اور غریبوں کے مسائل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کو کروڑوں روپے کی آفر کی گئی چئیرمین سینیٹ کو ووٹ دینے کی لیکن انہوں نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔ سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پاکستان جو سینئر وزیر خیبر پختون خوا، وزیر خزانہ رہے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور دیانتداری کی وجہ سے ان کا نام عدالت عظمیٰ کے پلیٹ فارم سے صادق اور امین کے نام سے لیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں غیر سودی بینکاری کے لیے ان کی کوشش قابل تحسین ہے۔
میرے ملک کے غیور لوگو اگر آپ کرپشن، ظلم، غربت سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تو ایسے رہبر کو ووٹ دینا جو پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا ہو، یہ سوچ کر بھول نہ جانا کہ انہوں نے کون سا جیتنا ہے اگر آپ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے تو ایک دن ضرور جیتے گی، صبح طلوع ہوگی، اندھیرا ختم ہوگا، ایسے باکردار اور باصلاحیت افراد صرف جماعت اسلامی کے پاس ہیں جو ملک کو سود سے پاک معیشت دیں گے، غربت سے پاک معاشرہ دیں گے، ظلم نہ ہو گا انصاف ہوگا، مفت تعلیم آپ کو میسر ہوگی، روزگار آپ کی دہلیز پر ہوگا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا اور ملک حقیقی مدینہ کی ریاست کی تصویر ہوگی، ایک آخری امید جو صرف جماعت اسلامی ہے جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے
اْداس چہرے گْلاب کر دے
جو ظْلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
خدا کرے وہ بہار آئے
جو قرض سارے اْتار آئے
مرے وطن کے نصیب میں بھی
سکون، راحت قرار آئے
خدا کرے کہ مرے وطن پر
گھٹائیں رحمت کی روز برسیں
مرے وطن کا ملے نہ ویزہ
یہ اہلِ یورپ بھی کچھ تو ترسیں