امریکا مخالف بیانیے کی چوری

936

پاکستان میں بیانیہ چرانے کا کام ملک کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ جب ملک اسلام اور نظریے کے نام پر بنا اور اسے سیکولر قرار دینے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حتیٰ کہ قائداعظم کو بھی سیکولر قرار دینے کے لیے سارا زور لگادیا گیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تو طویل عرصے تک ملک کا بیانیہ بدل ہی ڈالا گیا تھا یوں یہ پہلی اور پاکستان کے بیانیے کی سب سے بڑی چوری تھی۔ یعنی ایک ملک جس نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا اس کے بیانیے کو 15 سے 20 سال کے لیے چرالیا گیا۔ پھر جب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر جید علما نے ملک کو اس کے اصل بیانیے کی جانب واپس لانے کی جدوجہد کی تو یہ بائیں بازو والے اِدھر اُدھر بھاگ گئے، لیکن بیانیہ چرانے والے موجود تھے چنانچہ جب ایوب خان کا آخری دور آیا یعنی ان کے دور اقتدار کا خاتمہ قریب آیا تو ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بائیں بازو کے لوگوں کو جمع کرکے بھٹو صاحب کو لیڈر کے طور پر آگے لانے کا فیصلہ کیا، ان کو اسلام، سوشلزم اور جمہوریت کی کھچڑی پکڑا دی… چونکہ اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جماعت اسلامی نے ملک کے عوام کے ذہنوں میں یہ بات واضح کردی ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ تو جس کو بھی لیڈر بنایا جائے اس کی زبان پر اسلام کا نام ضرور آنا چاہیے۔ چنانچہ بھوٹو صاحب کا نعرہ اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دین نافذ ہوا نہ سوشلسٹ معیشت، جاگیردار اور وڈیرہ حکمرانوں کو سوشلسٹ معیشت کیونکر ہضم ہوسکتی تھی۔ یہ تو ہاری کو انسان نہیں سمجھتے اور جمہوریت بے چاری تو مفت میں ماری گئی۔
اسٹیبلشمنٹ نے یہ تصور کیا تھا کہ بھٹو صاحب کے دور حکومت کے بعد عوام کے ذہنوں سے اسلام کا خواب نکل گیا ہوگا لیکن بھٹو صاحب نے جھرلو کے بعد جو نعرہ قوم نے لگایا وہ نظام مصطفی کا نعرہ تھا۔ انتخابات تک جو تحریک اور اتحاد بھٹو ہٹائو مہم چلا رہا تھا انتخابات کے بعد وہ تحریک نظام مصطفی میں بدل گئی اور اس قدر شدت سے نظام مصطفی کی جدوجہد شروع ہوئی کہ اسے روکنے کے لیے مارشل لا آگیا، لیکن مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق بھی بیانیہ چرانے میں پیچھے نہیں رہے اور اقتدار سنبھال کر 90 روز میں انتخاب اور ملک میں نظام مصطفی نافذ کرنے کا وعدہ کیا۔ اپنی مجلس شوریٰ بنائی تاکہ اسلام کا حوالہ درمیان میں رہے۔ جنرل ضیا الحق نے اسلام کا بیانیہ اپنے نام کرنے کے لیے فوج میں خطیب اور امام مقرر کیے۔ اپنے ساتھ اقوام متحدہ میں تلاوت کے لیے قاری عبیدالرحمن کو لے گئے۔ غرض ان کی بھرپور کوشش تھی کہ وہی اسلام کے حقیقی علمبردار نظر آئیں اور حکومت اور میڈیا کی کوششوں سے وہی امیر المومنین نظر آتے تھے، جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے نفاذ کی اصل دعویدار سیاسی جماعتیں پس منظر میں چلی گئیں۔ یہ بیانیہ تو جماعت اسلامی، جے یو پی اور جے یو آئی وغیرہ کا تھا لیکن 11 سال ہی بعد بیانیہ جنرل ضیا الحق اور فوج کا بن چکا تھا۔ پاکستان میں اسلام اور جمہوریت یہی دونوں چیزیں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔ عمران خان، مولانا فضل الرحمن پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اسلام کو سیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں حالانکہ اسلام کا نام لینا اور اس کے لیے کام کرنا تو مولانا فضل الرحمن ہی کا حق اور فرض تھا اور ہے، لیکن عمران خان تبدیلی لاتے لاتے ریاست مدینہ کا نام لینے لگے، یعنی جنرل ضیا کے بعد بھی اسلام کے حوالے کے بغیر کوئی حکمراں حکمرانی نہیں کرسکا۔ شاید یہ بدنصیبی صرف جنرل پرویز مشرف کے حصے میں آئی۔
قیام پاکستان کے بعد سے بیانیے کی چوری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب اسلام کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے اور اسی جمہوریت میں تبدیلی کے لیے عمران خان لائے گئے، انہیں لیڈر بنایا گیا اور بیس سالہ جدوجہد کے بعد اچانک خان صاحب کو تبدیلی کی علامت بناکر آر ٹی ایس بٹھا کر وزیراعظم بنایا گیا تو اسلام کا نام کہیں نہیں تھا۔ صرف جمہوریت، کرپشن کا خاتمہ اور تبدیلی کا نعرہ تھا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں تبدیلی کا نعرہ اسلام اور ریاست مدینہ میں تبدیل ہوگیا اور اب تو وہ صرف ریاست مدینہ کی بات کرتے رہے۔ حکمران کسی بھی طرح کی ہو لیکن زبان پر نام اسلام ہی کا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت نظریہ پاکستان کو چھپا کر بیانیہ تبدیل کیا گیا اور اب سب سے بڑا بیانیہ امریکا مخالفت کا ہے، اتفاق ہے یہ بیانیہ بھی جماعت اسلامی کا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے گو امریکا گو کو مہم چلائی اور یہ کامیاب بھی ہوئی، امریکی افواج کا دخل پاکستان میں کم ہوا، ڈرون حملے رکے بالآخر افغانستان سے بھی امریکا کو جانا پڑا، اس بیانیے کو عمران خان کے سر سجانے کے لیے ایک خط کا سہارا لیا گیا۔ دو ہفتے سے زیادہ اس حساس خط کو وزیراعظم کہاں چھپائے بیٹھے رہے۔ اب ان کے اقدام سے اسمبلی، حکومت، کابینہ، وزیراعظم سب معلق ہیں، پنجاب اسمبلی میں بھی اسی قسم کا بحران ہے۔ گویا نئے انتخابات ہی ہوں گے، وہ ساری باتیں سامنے آرہی ہیں جو ذرائع کے حوالے سے اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بجائے قومی حکومت، وزیراعظم کا استعفا اور نئے الیکشن۔ شہباز شریف کو تین ماہ کے لیے وزیراعظم بناکر نئے انتخابات کا اعلان کروانا وغیرہ شامل تھے، ان ہی میں سے ایک حل سامنے آگیا، بس چونکہ کپتان شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اس لیے اس قسم کا فیصلہ کیا گیا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم اب ان کی سیاست ختم… لیکن ذرا غور کریں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو واپس لائے گی… یعنی وہ سارا کھیل پھر شروع جس سے بچنے کے لیے انہیں ہٹایا اور ملک سے باہر بھیجا گیا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بڑی مشکل سے آصف زرداری سے جان چھڑائی ہے کیا وہ دوبارہ انہیں عمل دخل میں شامل کرلیں گے۔ اس وقت کی صورت حال ہی اسٹیبلشمنٹ کو تمام خرابیوں، کمزوریوں اور حماقتوں کے باوجود عمران خان ہی اسے کام کے لگ رہے ہیں۔ کمزوری اور حماقت عوام کے لیے خراب ہوئی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں تو یہی خوبی ہے، اور اگر خود کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایسا آدمی بہترین ہوتا ہے، لہٰذا کسی غلط فہمی میں نہ رہا جائے۔ عمران خان کو امریکا مخالف بیانیہ اس لیے تھمایا ہے کہ اب وہی امریکا مخالف نظر آئیں گے۔ ساری عمر امریکا کے حوالے دیتے رہے۔ امریکی درآمد شدہ لوگوں کو اپنا وزیر مشیر بناتے رہے اور سیاست امریکا مخالف بیانیے پر کریں گے۔ اصل امریکا مخالف پارٹیاں پیچھے دھکیل دی جائیں گی، لگتا ہے کہ ابھی عمران خان سے اور کام بھی لینے ہیں۔ ڈھول پیٹنے والے اور نئے الیکشن میں جانے والے پہلے حکمت عملی بنالیں ورنہ آر ٹی ایس اور ووٹنگ مشین بہت سارے حربے آزمائے جائیں گے۔