عدالت عظمیٰ کا تاریخ ساز فیصلہ

754

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ جو جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تھا کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس آج نو اپریل کو طلب کرنے کے متفقہ فیصلے کو تمام مکاتب فکر کی جانب سے وطن عزیز کو سیاسی اور آئینی بحران سے نکالنے پر اعلیٰ عدلیہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ اس فیصلے سے عدالت عظمیٰ جہاں ماضی کے بعض ’’متنازع فیصلوں‘‘ کے داغ دھونے میں کامیاب ہوئی ہے وہاں اس آزادانہ فیصلے سے نہ صرف اندرون پاکستان بلکہ بیرونی دنیا میں بھی عدلیہ کا وقار اور مرتبہ بلند ہوا ہے۔
سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین کا اس تاریخ ساز فیصلے پر کہنا ہے کہ ازخود نوٹس پر آنے والے اس فیصلے پر عمران خان حکومت کی جانب سے اب زیادہ سے زیادہ نظر ثانی کی ایک درخواست دائرکی جا سکتی ہے لیکن اگر ماضی کے مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو نظر ثانی کی درخواستوں میں بھی پرانے فیصلے بدلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لہٰذا اولاً تو توقع ہے کہ حکومت یہ واضح اور دو ٹوک فیصلہ آنے کے بعد دوبارہ اپنی سبکی نہیں کرانا چاہے گی اور اگر بالفرض اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر بھی کی جاتی ہے تو اس کا بظاہر وقت کے ضیاع کا اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ البتہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ اس فیصلے کے پاکستان کی مستقبل کی سیاسی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے درست قرار دے دیا جاتا تو پارلیمان کے اندر مکمل نظام اسپیکر کے تابع ہو جاتا، اسپیکر ڈکٹیٹر بن جاتا اور پورے پارلیمانی نظام اور پارلیمان کا ہی وجود بے معنی ہوکررہ جاتا جس سے ملک کا پورا آئینی نظام متزلزل ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب ناصرف وزیراعظم عمران خان بحال ہوگئے ہیں بلکہ اُن کی کابینہ بھی بحال ہو گئی ہے اور پارلیمان میں معاملہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو گیا ہے جہاں سے اس تنازعے نے جنم لیا تھا یعنی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف طے شدہ آئینی ضابطے کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی۔ نئے حالات جو دراصل 31مارچ کی صورتحال ہی کا تسلسل ہیں کے دوران اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پاتی تو ان کے پاس باقی ماندہ مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے کا آئینی حق اب بھی موجود ہے البتہ کامیابی کے بعد اگر وہ بطور وزیر اعظم صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دیتے ہیں تو یہ ان کا قانونی حق تسلیم کیا جائے گا اور ایسے میں قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اور اس پھر اپوزیشن سمیت کسی کو بھی اعتراض کا حق نہیں ہوگا۔
بصورت دیگر اگر عدم اعتمادکی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے اور ایوان ایک نئے وزیراعظم یا قائد ایوان کا انتخاب کرے گا جس کا واضح ذکر عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے میں موجود ہے۔ عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں نیا منتخب ہونے والا کوئی عبوری وزیراعظم نہیں ہو گا بلکہ مکمل اختیارات کے ساتھ بااختیار قائد ایوان ہو گا جو قومی اسمبلی کی بقیہ مدت تک وزیراعظم رہ سکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اسمبلی تحلیل کر دے اور مشاورت سے نئے انتخابات کا اعلان کر دے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ آئندہ باقی رہنے والی آئینی مدت کے لیے عمران خان یا پھر اپوزیشن حکومت بناتے ہیں حالیہ فیصلے کا سب سے قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ اس تاریخی فیصلے سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوگی بلکہ اس سے نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر آئین کی بالا دستی کی ایک نئی تاریخ ساز روایت بھی قائم ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔ اسی طرح اس فیصلے سے یہ توقع بھی بے جا نہیں ہے کہ یہ فیصلہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ قومی اور معاشی عدم استحکام کے خاتمے میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور ملک میں اس صورتحال سے جو غیریقینی حالات پیدا ہوگئے تھے وہ بھی ان شاء اللہ جلد معمول پر آجائیں گے۔