سفارتی معاملہ، سیاسی جلسہ اور ملک کا وقار

315

پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کے انتخاب کے معاملے میں تو پہلے ہی بے بس تھی اور اس کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ جس پارٹی اور جس شخص کو وہ ملک کا سربراہ بنانا چاہتے تھے، منتخب بھی وہی ہوا ہے، بلکہ میڈیا یہ بتاتا ہے کہ اب کون حکمرانی کرے گا۔ اس کے نتیجے میں قوم پر وہی شخصیت مسلط ہوجاتی ہے لیکن اس مرتبہ ایک اور ظلم پاکستانی قوم کے ساتھ ہوا ہے اور وہ یہ کہ ان کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے جذباتی کرکے استعمال کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سفارتی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر وزیراعظم نے اپنے سیاسی جلسے میں خط لہرا کر یہ بتایا کہ مجھے بیرون ملک سے دھمکی آمیز خط ملا ہے کئی دن تک اس خط کا تذکرہ میڈیا کے ذریعے چلتا رہا قوم کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ کس نے دھمکی دی ہے۔ پاکستان کو آخری دھمکی بھی امریکا کی طرف سے آنا تھی لیکن وہ دھمکی جس انداز میں دی گئی وہ دھمکی بھی تھی اور دھمکی نہیں بھی تھی۔ صرف مضبوط اور مستحکم لہجے میں پوچھا گیا کہ آپ دوست ہیں یا دشمن… ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں، اور ایک خوفزدہ جرنیل نے فوراً ہاں کردی۔ اس کا نتیجہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان نے جو کچھ کہا ہے اس کا نتیجہ بھی ہولناک ہوگا اور عالمی برادری میں پاکستان غیر معتبر ملک کے طور پر جانا جائے گا۔ دنیا بھر میں سفارت کاروں کو بلاکر طرح طرح کی باتیں شکوے شکایت کیے جاتے ہیں، اپنے ملک کی خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے اور جن سے کہا جاتا ہے کہ وہ سفیر یا سمجھدار سفارتی نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اپنی حکومت کو مذکورہ ملک میں پائی جانے والی کیفیت اور اپنے ملک کے بارے میں ان کے خیالات پر مشتمل مراسلے بھیج دیتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہوگا، یہ ممکن ہے کہ متعلقہ حکومت کے افسران کے الفاظ اور مافی الضمیر کو سمجھنے اداروں کو تحریر کرنے میں پاکستانی سفارت کار سے غلطی ہوگئی ہو بلکہ معاملہ یہی ہے۔
اس صورت حال سے دو باتیں سامنے آتی ہیں کہ ایک تو جس شخص کو سفیر بناکر بھیجا گیا ہے اس کی اہلیت مشتبہ ہوگئی ہے، اگر وہ ملک امریکا ہے جیسا کہ وزیراعظم نے کہہ دیا… تو پھر امریکا میں پاکستانی سفیر کے تقرر کے باوجود ان کی اسناد سفارت قبول کرنے میں کافی وقت لگا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وزیراعظم نے ایک سفارتی معاملے کو سیاسی جلسے کا موضوع بنادیا۔ یہ دونوں باتیں پاکستان کو غیر معتبر ملک بنانے کا باعث بنیں گی۔ حیرت ہے پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی حکمرانوں کے خطوط، سفیروں کے بیانات اور تبصروں اور بھارتی پارلیمان میں ہونے والی گفتگو، قراردادوں اور ان کے سرکاری مراسلوں پر آج تک ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا جیسا اس مرتبہ ظاہر کیا گیا۔ وزیراعظم یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ میں نے امریکا کو نو کہا تھا، میں نے یورپی ممالک کو دھمکی دینے پر صاف کہہ دیا تھا کہ ہم تمہارے غلام نہیں اس لیے میرے خلاف عالمی سازش تیار کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت یا وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آنے کے بعد یہ ساری باتیں سامنے آئی ہیں۔ شاید پی ٹی آئی کے حامی اور ووٹرز یا سادہ لوح پاکستانی اس سارے ڈرامے پر یقین کرکے بیٹھے ہوں اور اسے پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہی تصور کررہے ہوں گے۔ لیکن عالمی سازش کا کوئی سبب ہوتا ہے، کسی ملک کا معاشی طور پر حیرت انگیز ترقی کرنا جو عالمی برادری کا پسندیدہ نہ ہو، کسی ملک کا اپنے مذہب پر سختی سے عمل کرنا جو صرف اسلام ہو، ہندو، یہودی یا عیسائی مذہب کے بارے میں دنیا کی رائے مختلف بلکہ کوئی رائے نہیں ہے، یا پھر دنیا کے اہم اور پسندیدہ ممالک کے لیے مسئلہ بننے والا حکمراں یا ملک عالمی سازش کا شکار ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے بھرپور تعاون کررہی ہے۔ لہٰذا عالمی سامراجی سرمایہ داری نظام کو چلانے اور اس کی ہدایت پر عمل کرنے والے حکمران کے خلاف سازش سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی حکومت میں اسلام کے لیے کون سا ایسا گراں قدر کام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان دو مرتبہ دنیا کی دو بڑی سپرپاورز کو دھول چٹانے والا ملک ہے اور عمران خان کی حکومت کے بغیر اس نے یہ کارنامہ دو مرتبہ کیا ہے۔ دونوں مرتبہ ملک کے عوام نے اور اس کے بعد مقتدر طاقتوں نے یہ کارنامہ کیا ہے۔ اس وقت تو ملک کے خلاف سازش بھی ہوئی اور پاکستانی صدر کا طیارہ بھی تباہ ہوا، لیکن عمران خان نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے کوئی ملک پاکستانی سفارت کار کو نوٹس لکھواتے ہوئے ایسی باتیں کرے گا۔
عمران خان نے جو کچھ کہا ہے اس کا نتیجہ تو قوم کو بھگتنا ہوگا لیکن یہ سوال عمران خان کو لانے والوں سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ایسے غیر معتبر شخص کو اتنا اہم منصب کیوں دیا گیا۔ اگر اب پاکستانی حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو عمران خان اسے اپنی سیاسی شہادت کے لیے استعمال کریں گے اور پھر کیا ہوگا وہ حکومت سے باہر ہوں گے اور 25 سال جس نظام کے خلاف جدوجہد کی باتیں وہ کرتے رہے اپنے چار سالہ دور اقتدار کے بعد وہ اسی نظام کا حصہ بن کر ان ہی لوگوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا سبب بنیں گے جن کو وہ چور، کرپٹ اور نااہل کہتے تھے۔ یہ مخمصہ بھی اپنی جگہ ہے کہ اگر تحریک کامیاب ہوگئی تو کیا ان ہی لوگوں میں سے کوئی وزیراعظم بنے گا جن کے نااہل اور کرپٹ ہونے کے بارے میں قوم یکسو ہے، یہ سوال بھی سلیکٹرز کے لیے ہے کہ کیا تمہارے پاس اس طرح کے کھوٹے سکے ہیں یا جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے یا پھر صلاحیت ہی اتنی ہے اس سے آگے نظر ہی نہیں آتا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام… وزیراعظم نے پاکستان کے وقار کو بہرحال دائوں پر لگادیا ہے۔