اٹھارویں ترمیم

432

اپریل 2009 کو آئینی ترمیم پر غور کرنے کے لیے ایک آل پارٹیز پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، جسے بعد میں 18ویں ترمیم کے نام سے جانا گیا، جس کا مقصد پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنا اور صوبوں کو بااختیار بنانا ہے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی، اس 26 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تھے، 2008 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتیجے میں جو اسمبلی وجود میں آئی اس میں پیپلزپارٹی کے پاس 116، مسلم لیگ(ن) کے ہاتھ 99 اور مسلم لیگ (ق) کو 54 انتخابی حلقوں میں کامیابی ملی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور محمود خان اچک زئی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، یوں یہ پہلی اسمبلی تھی جو میثاق جمہوریت کے بعد قائم ہوئی، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے مل کر حکومت بنائی، دونوں جماعتوں کے وزراء سے صدر جنرل مشرف نے حلف لیا، چودھری پرویز الٰہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے، بعد ازاں مسلم لیگ (ن) وفاقی حکومت سے الگ ہوئی اور چودھری نثار علی خان قائد حزب اختلاف بن گئے، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی میثاق جمہوریت میں پائی جانے والی ہم آہنگی کے وقت جو رہنماء اصول ان دونوں جماعتوں نے اپنے لیے مل کر طے کیے تھے ان کی روشنی میں آئین میں ترمیم لائی گئی اور اس کے لیے ایک بڑی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس حلف کے ساتھ کام شروع کیا کہ کمیٹی کا کوئی رکن اجلاس میں ہونے والی گفتگو افشا نہیں کرے گا، اسی آئینی پیکیج کے تحت صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہوا اور اسے خیبر پختون خوا کا نام دیا گیا، اسی ترمیم میں این ایف سی ایوارڈ کے لیے اصول وضح کیے گئے، آئین کے آرٹیکل 63/A بھی اسی کا حصہ تھا۔
1947 سے 2010 تک، جب تک آئین کی اٹھارویں ترمیم نہیں لائی گئی تھی، سوچ یہی غالب رہی کہ ایک مضبوط وفاق ہی فیڈریشن چلانے کی کلید ہے یہ موقف اس طرح تبدیل کیا گیاکہ ایک مضبوط وفاق کے لیے فیڈریشن اکائیوں کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، اس ترمیم میں یہ کام ہوا، تحریک انصاف اس ترمیم کو پسند نہیں کرتی اس میں ترمیم لانے کی ہامی ہے، لیکن مضبوط وفاق کے لیے فیڈریشن اکائیوں کو بااختیار بنانے کی ہامی سیاسی قوتیں بانی پاکستان سے رہنمائی لینے کا دعویٰ کرتی ہیں اس دعوے کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح کے مشہور 14 نکات میں پنہاں ہے جن میںکہا گیا تھا کہ صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جانی چاہیے، اس وقت معاملہ عدالت عظمیٰ میں آئین کے آرٹیکل 63.A کی تشریح سے متعلق ہے تاہم سینیٹر رضا ربانی نے اس میں فریق بننے کی درخواست دی کہ وہ عدلیہ کی معاونت کرنا چاہتے ہیں، ان کے خیال میں جب ترمیم کا مسودہ تیار کیا جا رہا تھا، آئینی کمیٹی کے تمام ارکان اس بات سے باخبر تھے کہ وہ شراکتی وفاقیت کے احساس اور جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیارات منتقل کر رہے ہیں ذہن میں یہی بات تھی کہ بہت زیادہ کوآرڈینیشن کی ضرورت ہوگی اور ہم نے مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کی تشکیل کا شعوری فیصلہ کیا اور کونسل کی سربراہی وزیراعظم کو دی گئی کونسل کے لیے ہر 90 دنوں میں ایک بار اجلاس کرنا لازمی قرار دیا ہے اس کا اپنا سیکرٹریٹ ہونا تھا، اس بارے میں کیا پیش رفت ہوئی؟ یہ سوال اس وقت پوری پارلیمنٹ کے روبرو ہے، اس ترمیم میںکنکرنٹ لسٹ ختم کی گئی۔ جس کے بعد سے سی سی آئی کو منقطع مضامین اور فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ-II کے لحاظ سے ایک متوازی کابینہ کا کردار ادا کرنا تھا۔ بدقسمتی سے یہ کام نہیں ہوا اس کی اب تک آخری میٹنگ دسمبر 2019 میں ہوئی تھی۔
بات ترمیم کو بحران کا ذمے دار قرار دینے کی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد سے ہے جس کے لیے سوچ تبدیل کرنا ہوگی کیونکہ اس کے لیے ہر سطح پر بڑی قیادت کی ضرورت ہے، بہر حال یہ نکتہ نظر اپنے جگہ، اس ترمیم کے بعد مزید ترامیم لائی گئیں، جن میں تعلیم سے متعلق ترمیم اہم تھی، ایک موقع یہ بھی آیا مسلم لیگ (ن) قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں رعایت کے بدلے 18ویں ترمیم میں مجوزہ تبدیلیوں کے حوالے سے حکومت کی حمایت پر آمادہ نظر آئی پیپلزپارٹی کی سوچ تھی کہ اگر زیادہ شراکتی وفاقیت پر بات چیت کی کوشش کی جائے تو تعاون ہوسکتا ہے اس سے زیادہ مانگا گیا تو بات سڑکوں پر ہوگی، لہٰذا حکومت خواہش کے باوجود 18ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکی کیونکہ کا موقف فالٹ لائن سے کم نہیں، تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ آرٹیکل63/اے تشریح سے تحریک انصاف کے موقف کو فائدہ پہنچا تو بات مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔