افغانستان کا نیا منظر نامہ

634

انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور کے زیر اہتمام افغانستان کا نیا منظر نامہ، خدشات اور امکانات کے موضوع پر ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پشاور میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان افغانستان پر افغان عوام کی تائید اور موثر قبضے کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے ہیں جن کا افغانستان کے تمام علاقوں پر قبضہ ہے اور انہوں نے پورے افغانستان میں مثالی امن قائم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دیا ہے لہٰذا پاکستان کو چین اور روس سمیت دیگر دوست ممالک کو اعتماد میں لیکر بلا توقف طالبان حکومت تسلیم کرلینا چاہیے۔ متذکرہ سیمینار ایک ایسے وقت اور موضوع پر منعقد ہوا جس کے متعلق ہر ذی شعور پاکستانی نہ صرف پریشان ہے بلکہ پاک افغان تعلقات کی پیچیدگیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پاک افغان تعلقات کی نزاکتوں کومد نظر رکھتے ہوئے ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد اور مشترکہ تاریخ، مذہب، ثقافت اور اقتصادی مفادات کے پیش نظر ایک دوسرے سے دور رہنا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں، ویسے بھی پاکستان اور افغانستان چونکہ ہمسائیگی کے اٹوٹ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں برادر ممالک کا دکھ سکھ مشترک ہے اور اب جب طالبان بھی برملا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ نوے کے عشرے کے بر عکس دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہیں اور ان کی جانب سے اس حوالے سے ان کے روئیوں میں لچک کا مظاہرہ بھی نظر آ رہا ہے تو پھر ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
سیمینار سے خطاب میں پاکستان کے دو کہنہ مشق سابق سفیروں اور دیگر ماہرین کا یہ استدلال سو فی صد درست اور لائق توجہ ہے کہ پاکستان کو 23،22 مارچ کو اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزراء خارجہ کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سیمینار سے خطاب میں معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان کی اس بات میں بھی کافی وزن نظر آتا ہے کہ پاکستان میں افغانستان کے معاملے پر کریڈٹ لینے کی ذہنیت کو بدلے بغیر نہ تو افغانوں کی سوچ کو پاکستان کے بارے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس روئیے سے پاک افغان تعلقات میں پائی جانے والی بداعتمادی کی فضاء کو ختم کیاجاسکتا ہے۔ افغانستان کے ساتھ انسانی ہمدردی کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان اب تک غیرسرکاری طور پر 2167 ملین روپے کا 580 ٹرکوں پر مشتمل امداد ی سامان افغان عوام کو پہنچا چکا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب یہ بات قابل اطمینان ہے کہ گزشتہ چھے ماہ میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں تب سے پورے افغانستان سے نہ تو کسی کے بھوک سے اور نہ ہی ادویات نہ ہونے کے باعث مرنے کی کوئی خبر آئی ہے۔
افغان عوام کو درپیش کئی چیلنجز میں سے ایک اہم چیلنج افغانستان کا معاشی بحران ہے جس کا براہ راست ذمے دار امریکا اور اس کے اتحادی ممالک ہیں جنہوں نے نہ صرف امارت اسلامیہ افغانستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکھی ہیں بلکہ افغانستان کے نو بلین ڈالر اثاثے منجمد کرکے انہیں نو گیارہ کے متاثرین میں تقسیم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یاد رہے کہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعد سے جب سے امریکا نے طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں تب سے پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت جو 2010 کے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی وجہ سے پہلے ہی شدید دبائو کا شکار تھی مزید خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔ اس معاہدے کے حوالے سے یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دبائو پر کیا گیا تھا جس کا درپردہ فائدہ بھارت کو پہنچایا جانا مقصود تھا حالانکہ پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس نے اس معاہدے کو مسترد کیا تھا لیکن ان کی نہیں سنی گئی تھی لہٰذا توقع ہے کہ دوطرفہ تجارت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشترکہ چیمبر سے مشاورت کرکے دونوں ممالک کے لیے قابل قبول اور قابل عمل پالیسی وضع کی جائے گی۔
واضح رہے کہ سیمینار کے دو سیشن ہوئے پہلے سیشن کی صدارت ادارہ تعلیم وتحقیق کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ارباب خان آفریدی نے کی جبکہ پہلے سیشن کے مقررین میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید محمد ابرار حسین، طالبان کے سابق دور حکومت کے چیف جسٹس مولانا محمد سعید ہاشمی، ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، پاک افغان فورم کے چیئرمین حبیب اللہ خان خٹک، معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان، پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی اور آئی آر ایس کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمن قریشی شامل تھے جب کہ دوسرے سیشن کی صدارت ڈین آف سوشل سائنسز جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر زاہد انور نے کی اور اس سیشن سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبد الباسط، افغان ہائی پیس کونسل کے سابق ترجمان اور سابق رکن اولسی جرگہ مولانا محمد شہزادہ، سابق افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء اللہ واحد یار، معروف صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر اور آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے بھی خطاب کیا۔