جھوٹی گواہی و الزام تراشی سماجی و عدالتی نظام کی تباہی کا سبب ہے،حد نافذ ہونی چاہیئے

523

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) جھوٹی گواہی معاشرے میں ناانصافی کو پروان چڑھاتی ہے اور یہ ایک بہت ہی غیر اخلاقی فعل ہے جو کسی بھی انسان کے پستہ قد ہونے کی نشاندہی کرتاہے‘ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اسے گناہ اور نا پسندیدہ ترین عمل کہا گیا ہے‘ جھوٹی گواہی اور الزام تراشی ایک سنگین جرم ہے‘ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو سماجی و عدالتی نظام تباہ کر دیتی ہے‘ جھوٹی گواہی یا الزام تراشی کرنے والے کا جھوٹ جیسے ہی عیاں ہو‘ اسے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی جھوٹی گواہی اور الزام تراشی نہ کرے‘ ضروری ہے کہ ہماری ریاست ان جرائم کی سنگینی کو سنجیدگی سے سمجھے کہ یہ اُن بڑے گناہوں میں سے ایک ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے حد جاری کی ہے اور معاشرے پر اِس کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا اس سنگینی کے پیش نظر ریاست کو حد قذف کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے‘ ریاستِ مدینہ کے نام پر نعرہ لگانے والے حکمرانوں کا فرض ہے کہ اسلام کے قوانین کا نفاذ ملک خداداد میں لازمی طور پر کریں تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں۔ ان خیالات کا اظہار بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اسلامیات ڈاکٹر گلناز نعیم، عنبر مہر ایڈووکیٹ اور وفاقی اردو یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ خلیل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’جھوٹی گواہی اور الزام کی شرعی، اخلاقی اور قانونی کیا حیثیت ہے؟۔ ڈاکٹر گلناز نعیم کا کہنا تھا کہ جھوٹ ایک ایسی اخلاقی بیماری ہے جس سے بچنے کے لیے اسلام میں سخت تاکید کی گئی ہے‘ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے انتہائی ناپسند کیا ہے‘ سورۃالحج کی آیت 30 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے روگردانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سورۃآل عمران آیت 16 میں فرماتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ کوئی بھی مسلمان جو واقعتاً سچا مسلمان ہو گا وہ اللہ کے اس حکم کے بعد جھوٹ کی روش سے ضرور اجتناب کرے گا۔ جہاں تک گواہی کا معاملہ ہے تو جو مذہب اپنے پیروکاروں کو جھوٹ بولنے سے روک رہا ہے تو وہاں جھوٹی گواہی کا معاملہ کتنا سنگین ہوگا۔ رسول اللہ ؐ نے جھوٹ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے اور مومن کے بارے میں فرمایا کہ وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ آپ ؐ نے جھوٹی گواہی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے لیکن یہ سوچے سمجھے بغیر لوگ اپنی روزمرہ زندگی اور مختلف معاملات میں محض اس لیے جھوٹی گواہی پیش کر دیتے ہیں کہ اپنے فرد کو بچالیں۔ روزانہ کی عدالتی کارروائی میں جب کسی بھی معاملے میں دونوں طرف کے گواہان کو پیش کیا جاتا ہے تو عموماً ان میں کسی ایک طرف کی گواہی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ فروری 2019ء میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کسی گواہ کی گواہی کا کچھ حصہ جھوٹ ثابت ہوجائے تو ساری گواہی مسترد کر دی جاتی ہے‘ اسلامی شریعت کے مطابق جھوٹے گواہ کی گواہی ساری زندگی تسلیم نہیں کی جاتی لیکن یہاں 40 سال سے عدالتوں نے اس معاملے پر رعایت دے رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جلد ایسا قانون لائیں گے کہ جھوٹے گواہ کی ساری گواہی مسترد کر دی جائے گی اور وہ ساری زندگی دوبارہ گواہی نہیں دے سکے گا۔ پھر مارچ2019ء میں 13 صفحات پر مشتمل اس تحریری فیصلے کو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود تحریر کیا۔ جس میں عدلیہ کو جھوٹی گواہی پر کسی قسم کی لچک نہ دکھانے کا کہا گیا جبکہ ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ جھوٹی گواہی پر جھوٹے گواہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جھوٹی گواہی کی طرح الزام تراشی کو بھی اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے‘ جبکہ فی الوقت حال یہ ہے کہ بغیر کسی تصدیق کے کسی سے بھی سنی سنائی بات کو سوشل میڈیا پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے خود عینی شاہد ہوں۔ اس طرح کی حرکتیں کر کے معزز یا بے قصور کی عزت اچھالنا ، اسلامی معاشرے کے افراد کو کسی بھی طرح زیب نہیں دیتا۔ بسا اوقات غریب اور بے سہارا لوگ الزام تراشی یا جھوٹی گواہی کی وجہ سے بے گناہ قید کر دیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی کا قیمتی وقت قید میں کاٹ رہے ہوتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر وہ کسی گھر کے کفیل بھی ہوں تو پورا گھرانا ہی اس جھوٹی گواہی یا الزام تراشی کی بھیٹ چڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جھوٹی گواہی یا الزام تراشی کرنے والے کا جھوٹ جیسے ہی عیاں ہو اسے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی جھوٹی گواہی اور الزام تراشی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان قبیح عادات میں مبتلا افراد کو ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔عنبر مہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جھوٹی گواہی اور الزام تراشی ایک سنگین جرم ہے ۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جو سماجی و عدالتی نظام تباہ کردیتی ہے۔ایسا شخص جو جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی کو جائداد یا زندگی سے محروم کردے یا کسی بے گناہ کی زندگی کو عذاب بنا دے ایسا شخص کسی صورت کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ احادیثِ مبارکہ کے مطابق (1) جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، ج3، ص123،) (2) جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عاید کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے( ابو داؤد، ج 4، ص354)۔ بہتان طرازی یا تہمت بدترین گُناہ ہے۔ قرآن میں اس جرم کی سنگینی کے پیشِ نظر اس کی سزا حدقذف‘ تک مقرر کر دی گئی ہے۔ سورہ الاحزاب، آیت 58 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’اور جو لوگ مومن مرد اور عورتوں کو ایسے کام سے جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا‘‘۔فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام ہے۔ الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اُس کے پاس کیا قابل قبول ثبوت ہیں؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اس کے حکم کی پیروی کے بجائے حکم عدولی کر رہے ہیں، اور جھوٹی گواہی دے کر بے قصوروں کو سزا دلوا رہے ہیں۔ کسی ملک کے امن و سکون کا دار و مداراس ملک کے عدالتی نظام پر ہے۔ ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوگا۔ جبکہ جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ پھانسی کی سزا دیتی ہے، ہائی کورٹ عمر قید کی سزا دیتی ہے جبکہعدالت عظمیٰ سے ملزم بری ہوجاتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے مجرم کو 7برس قید سے لیکر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہماری ریاست ان جرائم کی سنگینی کو سنجیدگی سے سمجھے کہ یہ اُن بڑے گناہوں میں سے ایک ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے حدیں جاری کی ہیں اور معاشرے پر اِس کے کیا مُضر اثرات مُرتب ہوتے ہیں لہٰذا اس سنگینی کے پیشِ نظر ریاست کو حدِ قذف کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر سعدیہ خلیل کا کہنا تھا کہ جھوٹی گواہی معاشرے میں ناانصافی کو پروان چڑھاتی ہے اور یہ ایک بہت ہی غیر اخلاقی فعل ہے جو کسی بھی انسان کے پستہ قد ہونے کی نشاندہی کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اسے گناہ اور نا پسندیدہ ترین عمل کہا گیا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں ایسی بہت مثالیں ملتی ہیں جس پر جھوٹی گواہی دینے والے کو کوئی سزا دی گئی ہو تاہم پاکستان کے قانون کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے کو وہی سزا دینی چاہیے جو الزام اس نے کسی دوسرے پر لگایا۔