سیاست کی بازی۔ ڈوبتا جہاز اور چوہے

629

پاکستانی سیاست میں اب کوئی نیرنگی نہیں رہی بلکہ یکسانیت کی انتہا ہوچکی ہے۔ یہ یکسانیت اس نیرنگی کی یکسانیت ہے یعنی ایک حکومت بنائی جاتی ہے اور ایک اپوزیشن دونوں کھیل شروع ہونے کا اعلان سنتے ہی شروع ہوجاتے ہیں حکومت اپوزیشن کے خلاف مقدمات پیدا کرتی ہے۔ اس کے سارے ادارے اس کام میں جُت جاتے ہیں۔ اپوزیشن بھی اوّل روز سے حکومت کے خلاف احتجاج اور ہنگامے شروع کردیتی ہے۔ باقی کام میڈیا کرتا ہے۔ سب کو دلچسپ انداز میں کھیل دکھایا جاتا ہے اور غذائی اشیا، پٹرول، تیل، ڈالر، سونا، مرغی، گوشت، سبزی، پھل، دالیں مہنگی ہونے سے بے پروا سڑکوں پر گڑھوں اور اندھیرے سے بے خوف صبح کولٹ کر رات کو گھر میں یہ سارے لوگ ٹی وی کھولتے ہیں۔ سیاست پر مخولیوں کے تجزیے سنتے ہیں اور امید باندھتے ہیں کہ اب صبح کو تبدیلی آجائے گی۔ اس تبدیلی کے انتظار میں کئی عشرے گزارنے کے بعد 2018ء میں ایک چیز تبدیلی کے نام پر پاکستان میں آگئی۔ یہ چیز بھی اسی چیز کی طرح آئی جو پاکستانی سرحدوں میں 262کلو میٹر سے زیادہ سفر کرکے ازخود تباہ ہوگئی۔ اس چیز کو بھی پونے چار سال ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے یہ بھی خود تباہ ہونے والی ہے۔ آج کل صرف ایک کام ہورہا ہے اس کے دوران عوام بہت سے حقائق سے واقف ہوتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے وزیراعظم کی زبان سے یہ معلوم ہوا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بوٹ پالش کرتے تھے۔ حالاں کہ دنیا میں کئی حکمران ہیں جو بہت سے عام قسم کے کام کرتے رہے ہیں۔ پڑوس کے نریندر مودی چائے والے، امریکا کے مونگ پھلی والے اور بہت سے لوگ حکمران بننے سے قبل کوئی نہ کوئی کام کرتے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بوٹ کون سے اور پالش کو سی؟؟ اس کا جواب شہباز شریف صاحب نے یہ دیا کہ میں تو پالش کرتا تھا اور آپ کیا کرتے تھے۔ میں نے بتایا تو بات دور تک جائے گی۔ شہباز شریف کی طرف سے جواب ادھار ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید کی ٹیلی فونک گفتگو جس میں وہ گالیاں دے رہے تھے ان کی پارٹی کی رہنما مریم اورنگزیب فرماتی ہیں کہ ہم گالیاں دینے والوں سے بات نہیں کرسکتے۔ اس پر یہی کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی طرف سے بھی گالیاں ہی آتی ہیں اور اُدھر سے بھی۔
پاکستانی عوام اگر اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھیں تو انہیں بہت کچھ معلومات مل جائیں گی۔ اگرچہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کون سا بوٹ اور کون سی پالش لیکن اب وزیراعظم نے فرمایا ہے تو یقینا وہ اس بوٹ اور پالش سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے آج کل کے بہترین دوست شیخ رشید ہیں انہوں نے غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پانچ پانچ ووٹ والے لوگ بلیک میل کررہے ہیں۔ وزارت علیا کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ شیخ رشید بھول رہے ہیں کہ یہی پانچ ووٹ تو ان کے اور اپوزیشن کے درمیان وزارت عظمیٰ میں فرق تھے یہ پانچ ووٹ اِدھر سے اُدھر آئے تو ان کو دس ووٹ کا فائدہ ہوا۔ اگر یہی پانچ ووٹ تحریک میں ان کے خلاف چلے جائیں تو وزیراعظم کے پاس 168ووٹ رہ جائیں گے۔ اور اگر یہ ووٹ دوسری طرف پڑجائیں تو کیا ہوگا۔ لیکن پانچ ووٹ والی پارٹی کے ایک رہنما مونس الٰہی نے شیخ رشید کو اوقات یاد دلادی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید ہمارے بزرگوں سے پیسے لیتے تھے۔ مونس الٰہی کے ایک بزرگ چودھری شجاعت تو حیات ہیں لیکن اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ شیخ رشید کہاں سے آئے ہیں اور کس کے مہمان ہیں۔ ہاں عوام سوچیں کہ اس چیخ پکار میں انہیں جو معلومات مل رہی ہیں وہ کیا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں میں سے کوئی بھی جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ بلکہ چوں کہ یہ غصے میں بول رہے ہیں اس لیے یہ سب سچ بول رہے ہیں۔ ذرا ٹھنڈے ہوگئے تو منافقانہ طرز اختیار کرلیں گے۔ جیسا کہ ایک دن کے بعد شیخ رشید صاحب نے احتیاط کرتے ہوئے کہا کہ چودھری شجاعت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں ہے۔
وزیراعظم کی زبان سے لفظ چوہا بار بار نکل رہا ہے۔ یہ زبان تو وزیراعظم کے بھنور میں پھنسے ہوئے جہاز کے مزید خطرے میں ہونے کی نشاندہی ہے۔ اسے ہمارا تبصرہ نہ سمجھا جائے لیکن ڈوبتے ہوئے جہاز سے سب سے پہلے چوہے چھلانگ لگاتے ہیں۔ لوگ خود دیکھ لیں کہ کون کون تحریک انصاف سے الگ ہورہا ہے۔ پہلے چوہے چھلانگ لگاتے ہیں اور یہ دیکھ کر کپتان کو یقین ہو جاتا ہے کہ جہاز ڈوب رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد جس انداز میں پیش کی جاتی ہے اور جس انداز میں اس سے نمٹا جاتا ہے بالکل اسی طرح ہورہا ہے۔ جن ارکان اسمبلی کے ضمیر کی خریداری کے بارے میں خبریں گرم ہیں اُن کے رویے بھائو تائو وغیرہ کو دیکھ کر پروین شاکر کا شعر یاد آیا لیکن یہاں وہ شعر اصل حالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان لوگوں نے جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاست کسی چیز کو اصل نہیں رہنے دیا تو شعر کیسے اصل رہے گا۔ ویسے شعر تو پیار کی بازی کا تھا لیکن ضمیر فروشوں نے کچھ یوں بنادیا ہے۔
اس شرط پہ کھیلیں گے بھیا سیاست کی بازی
تو جیتا تو حکومت تیری اور ہم تیرے
تو ہارا تو حکومت جس کی ہم اُس کے
اس شرط پہ کھیلیں گے یہ بازی جو جیتا ہم اُس کے
واضح رہے کہ یہ اشعار نہیں ہیں بلکہ پاکستانی سیاست کا جو حال کردیا گیا ہے یہ ان کی ترجمانی ہے۔ اگر کسی نے وزن، ردیف قافیہ وغیرہ کا حساب کتاب کرنے کی فاش غلطی کی تو وہ اپنا قافیہ خود تنگ کرے ہمیں بالکل الزام نہ دے۔ یہ جو اکثر کیا جاتا تھا کہ سیاست میں ملائوں کا کیا کام اور آپ کہاں سیاست میں آگئے آپ تو شریف آدمی ہیں۔ اب ان سلیکٹڈ حکمرانوں اور سلیکٹڈ اپوزیشن والوں نے سیاست کو گالی ہی بنادیا ہے۔ اس سیاست کو پاک کرنے کے لیے سب سے پہلے ضمیر فروشوں، چوری کے پیسے سے ارکان کو خریدنے والوں اور عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے چوہوں کا شکار کرنے والوں سب سے نجات ضروری ہے اور یہ ملائوں کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔