عدم اعتماد ہر صورت عوام کی ناکامی

373

بہت پرانا شعر ہے کہ
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا…
یہ شعر ہمیں یوں یاد آیا کہ آج کل اخبارات میں صرف ایک چیز کا شور ہے اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد پیش کردیں گے۔ کامیاب ہوجائیں گے، ناکام ہوجائے گی، شوق پورا کرلیں وغیرہ وغیرہ۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ہمنوا حکومتی قوالی گارہے ہیں اور اپوزیشن عدم اعتماد کی قوالی میں مصروف ہے۔ اس سارے ڈرامے کو گھر گھر پہنچانے کا کام میڈیا کے ذمے ہے جو اس ذمے داری کو کماحقہ ادا کررہا ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی حصہ چڑھا لیا ہے۔ خبریں اس انداز میں الیکٹرونک میڈیا پر پیش کی جاتی ہیں جیسے دنگل ہورہا ہے۔ شیر ِ پاکستان بمقابلہ شیر ِ سندھ۔ یا آج دنگل ہوگا۔ ایک مذاق بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سب کا حساب چکتا کردوں گا۔ ایسا منصوبہ بنایا ہے کہ اپوزیشن کو سمجھ ہی میں نہیں آئے گا۔ تمام ارکان میرا ساتھ دیں گے۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں ایک تو اس کے بعد اپوزیشن والوں کا حساب کردیں گے۔ دوسرا یہ کہ جس جس سے جو وعدے کیے ہیں وہ ان کو ادائیگی کردیں گے۔ خیر ہمیں اس بیان کے مطالب نکالنے سے مطلب نہیں صورت حال یہ ہے کہ عوام خود اپنے مسائل سے بے پروا ہیں انہیں بھی کچھ یاد نہیں رہتا کہ ان سے کیا وعدہ کیا گیا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن قبل کہا گیا تھا کہ بجٹ تک پٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا لیکن اضافہ کردیا گیا ساتھ ہی خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے منی بجٹ بھی پیش کردیا گیا۔
اب ذرا جائزہ لیتے ہیں تحریک عدم اعتماد کا۔ تحریک کے پیش ہونے کے بعد اس کے دو ہی نتائج ہوتے ہیں کامیاب ہوجاتی ہے یا ناکام ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن نے میڈیا کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تحریک کامیاب ہوگی اور عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے لیکن عوام کو سوچنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ شاید وہ سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ مثلاً اگر تحریک کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا۔ آصف زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن۔ ممکن ہے علیم خان اور چودھری برادران بھی کامیابی میں حصہ ڈالیں اور ایم کیو ایم بھی۔ ان میں سے کون رہتا ہے؟ ان میں سے اکثر کے بارے میں تو موجودہ حکمران کہتے آرہے ہیں کہ وہ چور ہیں چوروں کے ٹولے کے لوگ ہیں اور اگر تحریک ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔ یعنی ایم کیو ایم، چودھری برادران اور علیم خان کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔ پہلی صورت یعنی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی۔ عوام کی ناکامی ہے۔ انہیں وہی سب لوگ ملیں گے جن سے 2018ء میں وہ سمجھ رہے تھے کہ جان چھڑالی ہے۔ پہلا فارمولا تو یہی ہے کہ تحریک کی کامیابی عوام کی ناکامی ہے۔ دوسرا فارمولا یہ ہے کہ تحریک ناکام ہوجائے گی تو کیا ہوگا!! تو یہ ہوگا کہ 2018ء میں عوام کو جو ناکامی ہوئی تھی اس کا تسلسل برقرار رہے گا۔ یعنی ان دونوں چوروں کے گروہوں کے ٹوٹے ہوئے لوگوں کے اقتدار کا تسلسل بلکہ مزید ٹوٹے ہوئے لوٹے حکومتی صفوں میں آجائیں گے۔ تو پھر یہ شعر درست اور صادق آتا ہے یا نہیں۔ جس زمانے میں یہ شعر بہت سنا کرتے تھے اس زمانے میں ایک دل جلے کچھ یوں بھی کہا تھا کہ
بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دم کا
جو دیکھا تو سالے کے ستلی بندھی تھی
اب یہ سالا رشتے کے معاملات میں تھا یا غصے میں کہا گیا تھا لیکن تحریک عدم اعتماد کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے۔ اس نتیجے کو یوں سمجھیں کہ یہ تحریک عدم اعتماد ہر صورت میں عوام کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی۔ کئی ماہ سے عوام کا وقت ضائع ہورہا ہے اور عوام بھی اس پر راضی ہیں۔ اس ہنگامے کے دوران کچھ ایسے کام بھی ہوگئے جن کا بظاہر اس ہنگامے سے تعلق نہیں لیکن بڑا گہرا تعلق ہے۔ ثبوت کسی کے پاس نہیں۔ بہت دن سے فوج کے افسر تعلقات عامہ کچھ نہیں بول رہے تھے لیکن بولے تو بھارتی جارحیت پر بولے۔ اور بھارتی شرانگیزی کا پردہ چاک کیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران یہ سوال بھی آگیا کہ فوج کس گروپ کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس پر جواب بھی مل گیا کہ ایسے شوشے چھوڑنے والوں سے سوال کیا جانا چاہیے ثبوت مانگنا چاہیے۔ اخبارات نے اگلے روز اور اسی روز ٹی وی نے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا وہ بھارتی جارحیت نہیں تھا۔ اخبارات میں خبر یہی بنی کہ فوج کا سیاست سے لینا دینا نہیں۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اس خبر کے ذریعے کئی حلقوں تک پیغام پہنچادیا گیا کہ فوج کی طرف نہ دیکھو اب اپنی لڑائی خود لڑو۔ نتائج آنے پر سمجھ میں آجائے گا۔ ویسے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا، جنرل پرویز مشرف کا بھی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ نوٹ فرمالیں۔ زیادہ گفتگو تو اس پر ہونی چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کیوں کی گئی ہے۔ جو لوگ حکومت بناتے ہیں اس کے لیے بہترین لفظ اسٹیبلشمنٹ ہے، کسی کا نام بھی نہیں ہے اور سب کا نام بھی ہے۔ وہ جس کو اگلی باری دینا چاہتے ہیں اسی کو دیں گے۔ عوام تو خوامخواہ خوش ہوتے رہیں گے۔ ذرا ایک عوامی سروے تو کرلیں اپنے قریب کے لوگوں سے پوچھ لیں کس حکمران کی شکل اچھی ہے اور کس کی خراب لگتی ہے۔ کیا شکل دیکھنے سے یا چہرہ بدلنے سے عوام کے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ ایسا تو کبھی ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ مسئلہ تو جب ہی حل ہوگا جب جھوٹ کا نظام تلپٹ کردیا جائے۔ جب جمہوریت کے نام پر جمہور کا قتل بند ہوجائے۔ جب تک یہ کام نہیں ہوگا کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس گلے سڑے نظام کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور یہ ارکان اسمبلی نہیں لاسکتے۔ بلکہ یہ تحریک عوام ہی لاسکتے ہیں۔ بس ان میں یہ شعور بیدار ہونے کا طویل انتظار کرنا ہوگا۔