جناب گورنر پنجاب معلوم کیجیے کہ پولیس کی ریٹنگ کیا ہے؟

635

 

ان دنوں ہر سیاسی شخصیت ریٹنگ کے بخار میں مبتلا ہے اور عوام ہیں کہ انہیں اس ملک میں صدمات کے دریا عبور کرنا پڑ رہے ہیں، ایک دریا عبور کرتے ہیں تو انہیں ایک نئے دریا کا سامنا ہوتا، تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو انتخابی مہم میں ایک نعرہ لگایا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان، مطلب یہی تھا کہ ہر شہری قانون کے تابع ہوگا اور کوئی تمیز نہیں کی جائے گی، کوئی اپنی دولت اور سیاسی رتبے کی وجہ سے قانون سے بالاتر نہیں ہوگا، مگر ہم کیا دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوگیا ہے؟ رائے عامہ کے حالیہ جائزہ کے مطابق ملک میں سب سے کرپٹ محکمہ پولیس کا ہے، یہ سروے نتائج گزشتہ دنوں ملکی اخبارات میں شائع ہوئے کسی صوبائی حکومت نے اور وزارت داخلہ نے اس کی تردید نہیں کی، گویا ان کی خاموشی سروے نتائج کو تسلیم کرنے کے مترداف ہے۔
جناب گورنر پنجاب: آپ لاہور میں ہوتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ کا دل پورے پنجاب کے لیے دھڑکتا ہے، مگر کچھ وقت نکالیے، دیکھ کہ لاہور میں قبضہ مافیا کس قدر متحرک ہے، یہ لوگ جعلی اقرار ناموں کے ذریعے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں، حکم امتناعی حاصل کرلیتے ہیں، ذرا یہ تو دیکھے کہ ایکسائز لاہور کے کتنے لوگ اس دھندے میں ملوث ہیں اور کمالیہ تو آپ کا شہر ہے، یہ ذرخیز خطہ ہے، اور یہاں اولیاء کے ماننے والے بھی رہتے ہیں اور یہ علاقہ اس خطہ کی ایک بڑی منڈی ہے جہاں اجناس فروخت ہوتی ہیں مگر یہاں ایک اور منڈی بھی ہے جہاں ظلم بکتا ہے اور انصاف خریدا جاتا ہے، جہاں انسانی عزت و وقار تہہ تیغ کیے جاتے ہیں اور انسانیت شرما جاتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر روز جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں مگر ظالموں کو موت یاد نہیں ہے مگر ایک پیسہ ہے اور سماجی رتبہ جس کی وجہ سے ہر تھانے میں ہر طاقت ور کو 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے انسانیت بھی بک چکی اس کی بھی ریٹنگ دیکھی جاتی ہے۔
حکومت لاکھ دعویٰ کرے کہ وہ ملک میں سماجی انصاف فراہم کر رہی ہے اور یکساں انصاف کی فضا بنا رہی ہے مگر یہ منجن نہیں بک سکتا کیونکہ حقائق بہت مختلف ہیں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو یہی سمجھا گیا کہ باہمی مساوت کے اصول پروان چڑھیں گے قانون اور انصاف سب کے لیے یکساں ہوگا اور سب کے حقوق برابر ہوں گے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، آج بھی یہ معاشرہ امیر اور غریب لوگوں میں تقسیم ہے امیروں کے گروہ اور جتھے اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ ہر قسم کی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، قانون ان اور پولیس بھی ان کی، غریب کے لیے آہیں اور تھانوں میں دھکے۔ عوام اب بھی ماضی کی طرح حکمرانوں کے آج بھی رٹے رٹائے جملے سن رہے ہیں کہ حکومت غریبوں کی ہامی ہے تحریک انصاف آئی تو سب نے کہا کہ تبدیلی آئی مگر بد قسمتی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔
جناب گورنر پنجاب: ایک واقعہ ہی سن لیجیے! پیر محل میں ایڈیشنل جج کی عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے پر پولیس کی موجودگی میں ملزم فرار ہوئے ہیں مقدمہ ایف آئی آر نمبر 9/2022 پولیس اسٹیشن اروتی، پیرمحل۔ اروتی پولیس اسٹیشن کے مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج پیر محل کی عدالت میں ہوئی اور محمد عاصم ولد محمد نذیر کی عبوری ضمانت منسوخ ہونے کا حکم عدالت نے جاری کیا لیکن حیران کن طور پر ملزم گرفتار نہ کیا جاسکا اور پولیس کی موجودگی میں فرار ہوگیا ایسا کیوں ہوا یہ تو اب پولیس ہی بہتر بتا سکتی ہے، اس کے دیگر دو ساتھی رمضان اور راشد بھی مرکزی ملزم کے ساتھ پیشی کے موقع پر موجود تھے اور انہوں نے آئی او اور آج جج کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن آئی او انہیں ملزم بنانے کو تیار نہیں، جب کہ ایف آئی آر میں ناک کی ہڈی توڑنے کی باقاعدہ شکایت درج کی گئی ہے… لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ ہے ہر گز نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے رہتے ہیں۔