مصطفی کمال نے30 جنوری کو تبت سینٹر سے وزیر اعلیٰ ہاوس کی جانب عوامی مارچ کا اعلان کردیا

399

چیئرمین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفی کمال نے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف 30 جنوری بروز اتوار تبت سینٹر سے وزیر اعلیٰ ہاو¿س کی جانب عوامی مارچ کا اعلان کردیا۔ہمیں روکا گیا تو نتائج کی زمہ دار حکومت ہوگی۔ طاقت کا جواب عوامی طاقت سے دیا جائے گا۔ جو جیسا کرئے گا اسے ویسا ہی جواب ملے گا۔ 30 جنوری کو ہمیں روکا گیا تو پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت جان لے کہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے۔ عوام 30 جنوری کو بڑی تعداد میں اپنے حق کی خاطر نکلیں۔ پاکستان چل ہی نہی رہا، وفاقی اور صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 12.5 فیصد سے زائد ہوچکی ہے، قیامت خیز مہنگائی اور ریکارڈ توڑ بےروزگاری نے غریب اور متوسط طبقے کو موت کی دہلیز تک دھکیل دیا ہے۔ ان سارے مسائل پر حکومت اور اپوزیشن کو سر جوڑ کر بیٹھ کر عوام کو مشکلات سے نکلنے کا راستہ سوچنا چاہیے تھا لیکن حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو گرانے پر لگی ہوئی ہے۔ کئی دہائیوں سے سندھ کا وزیر اعلی پیپلز پارٹی سے ہے، جب تک یہ وزیر اعلیٰ رہتے ہیں تب تک پنجاب، اسٹیبلشمنٹ اور وفاق سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جب سندھ کو حقوق دینے کی بات آتی ہے تو تمام وسائل اور اختیارات پر قابض ظالم حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں کہ پنجاب، اسٹیبلشمنٹ اور وفاق تمہارا حق مارہا ہے، پھر یہ نوجوانوں سے ہتھیار اٹھواتے ہیں، سندھو دیش کے نعرے لگوا کر اسٹیبلشمنٹ اور وفاق کو بلیک میل کرتے ہیں۔ صرف تیرہ سال میں پیپلزپارٹی کو 10 ہزار 242 ارب ملے، پیپلز پارٹی پہلے اسکا حساب تو دے۔پاکستان کے سیاسی حالات انتہائی مخدوش ہوچکے ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت نفرت اور تعصب کی بنیاد پر راج کر رہی ہے صوبے بھر میں لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہورہی ہے اور عوام میں لسانی لاوا پک رہا ہے جس کا فائدہ ملک دشمن ایجنسیاں اٹھاتی ہیں تاکہ یہاں پر سندھی، مہاجر ، پختون فسادات کروائے جائیں، جب نوجوانوں سے ان کا جینا کا حق چھین لیا جائے گا تو یقیناً وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی ملک دشمن سندھ حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صوبہ سندھ کی بہت بڑی آبادی کو پاکستان کے خلاف کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی بداعمالیوں کے باعث سندھ کا معاملہ اب کوئی علاقائی معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ پاکستان کی قومی سلامتی، معیشت اور سالمیت کے لیے واضح خطرہ بن گیا ہے۔ پاک سر زمین پارٹی پیپلز پارٹی کا پردہ چاک کر رہی ہے۔وہ پیر کو پاکستان ہاو¿س میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس موقع پر صدر پی ایس پی انیس قائم خانی سمیت دیگر مرکزی عہدیداران بھی موجود تھے۔ سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے عددی اکثریت کی بنیاد پر نئے بلدیاتی ترمیمی قانون کے زریعے اپنا الیکشن کمیشن بنا رکھا ہے جو کہ آرٹیکل 140(2)A کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل 2013 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے لفظ پاکستان ہٹا دیا تھا اور آج پیپلز پارٹی نے 2021 کے ترمیمی ایکٹ سے پورا الیکشن کمیشن کا لفظ ہی نکال دیا ہے جبکہ نئے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی قانون کو پیپلز پارٹی اسمبلی میں پیش کیے بغیر محض ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لوکل گورنمنٹ قانون میں مزید تبدیلی کرسکے گی جو اس آئین پاکستان کیساتھ بھونڈا مذاق ہے جو خود پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔پیپلز پارٹی صوبائی وزارتوں کے ساتھ ساتھ اب شہری حکومت کے اوپر بھی قبضہ کر رہی ہے۔2001 میں بلدیاتی حکومت کے اختیار میں 47 محکمے تھے لیکن اب صرف 21 رہ گئے ہیں۔ ایک ایک کرکے سارے محکمے سندھ حکومت قبضہ کر چکی اور ان تمام محکموں کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا ہے۔ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جو کئی ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہیں، پیپلز پارٹی نے صرف تعلیم کی مد میں 2300 ارب روپے خرچ کیے، آج سندھ میں ہزاروں گھوسٹ اسکولز اور لاکھوں گھوسٹ ٹیچرز ہیں جسے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ کیا۔ نئے تعلیمی ادارے کھلنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کو بند کیا جارہا، سندھ میں سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو فلاحی اداروں کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے۔ سندھ میں ایک نئی لائن پینے کے پانی کی نہیں ڈالی گئی، کراچی کے شہری سے لیکر تھر پارکر کے دیہی علاقوں تک لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے، سندھ حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو سرے عام گولیاں چلاکر قتل عام کیا جاتا ہیں۔آج بھی ام رباب اور ناظم جوکھیو کے لواحقین عدالتوں سے انصاف مانگتے پھر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کو اپنی زاتی ریاست بنالیا ہے، وہ سندھ میں جمہوری حکومت نہیں بلکہ اپنی ریاست چلا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اپنی حکومت چلانے کے لئے زرادی صاحب کو سندھ میں کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ نئی حلقہ بندیاں ہوں، نئے ڈسٹرک کا قیام ہو، نئے ٹاو¿ن بنانے کی بات ہو تو سندھ حکومت لسانی تعصب کے تحت تمام کام سر انجام دیتی ہے، سندھ کا وزیر اعلیٰ انتہائی متعصب سیاست کے حامی ہیں۔ وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر سندھ حکومت شہری حکومت کے معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے تو پھر سندھ پاکستان کا صوبہ ہے، وفاقی حکومت مداخلت کرئے اور شہریوں کو بچائے۔ ریاستی اداروں کو مطلع کرتا ہوں اہلیان کراچی کے ساتھ بہت ظلم اور زیادتی ہوچکی اب مزید برداشت نہیں ہوگا۔ سندھ حکومت کو لگام دینے کا وقت آگیا۔ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہے آپ نہ آئین پاسداری کریں، نہ اداروں کی پاسداری کریں اور اپنی مرضی اور فائدے کے قانون بناتے چلے جائیں، پاک سر زمین پارٹی پاکستان کو بچانے کی خاطر جہاد کررہی ہے اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک گرائے گی۔ انہوں نے میں اہلیان کراچی سے کہتا ہوں آو¿ں میرا ساتھ اور اس لسانی حکومت کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ ہم اپنے سندھی بھائیوں کو بھی اس ظلم سے نجات دلائیں بس اب اس شہر کا ہر آدمی باہر نکلے چاہے وہ پنجابی، پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر ہوں سب کو نکلنا ہوگا، میں پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے کارکنان سے کہتا ہوں اپنی قیادت سے سوال کریں کہ آپکے علاقے میں بہتری کیلئے وسائل نیچے منتقل کیوں نہیں کرتے۔ ہم 30 جنوری کو بتا دیں گے کہ جب باکردار اور قابل قیادت سامنے کھڑی ہوجائے تو ظالم کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور پیپلز پارٹی کے ظلم کا وقت اب ختم ہوتا ہے۔