ناکوں چنے چبواتا چین

677

چین کی قیادت نے تین عشروں کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ملک کو مینوفیکچرنگ جائنٹ بنا ڈالا ہے۔ آج سب سے زیادہ صنعتی پیداوار والا ملک ہے۔ چین میں لاگت اتنی کم ہے کہ اُس کا سامان ہزاروں میل کی دوری پر بھیجے جانے پر بھی سستا ہی رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں چین کی مصنوعات کو پسند کیا جاتا ہے۔ روزمرہ استعمال کے سیکڑوں آئٹم چین میں اتنی کم لاگت سے تیار ہوتے ہیں کہ چھوٹے ممالک تو مقابلہ ہی نہیں کرپاتے۔ ایسے میں اُن کے بیوپاریوں کے پاس چین سے مال منگوانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا۔ ترقی یافتہ ممالک بھی چین سے مصنوعات درآمد کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اپنے ہاں لاگت زیادہ آتی ہے اور لوگ زیادہ قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ آج کی دنیا اِسی طور چل رہی ہے۔ بعض ممالک نے بہت سی عمومی اشیا اپنے ہاں تیار کرنے کے بجائے چین سے لینے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اپنی توانائی، وقت اور صلاحیت کو دیگر شعبوں پر صرف کیا جائے۔
بھارت جیسے بڑی آبادی، بڑی افرادی قوت اور بڑے صنعتی ڈھانچے والے ممالک بھی چین سے بہت کچھ منگوانے پر مجبور ہیں کیوں کہ غریب عوام اپنے ہاں تیار کی جانے والی چیزوں کے زیادہ دام ادا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ سب بھارت کی سیاسی قیادت اور صنعت کاروں کے لیے یکساں طور پر پریشان کن ہے۔
احمد آباد کے گجراتی اخبار ’’سندیش‘‘ نے سرحدی اُمور کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات میں بھی چین کے ہاتھوں اُٹھائی جانے والی ہزیمت پر ایک حالیہ اشاعت میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
٭٭٭
جنوری 2021 سے نومبر 2021 کے دوران بھارت اور چین کے درمیان 8.57 لاکھ کروڑ روپے کی تجارتی ہوئی جو اب تک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ برس کی اِسی مدت کے مقابلے میں یہ تجارت 46.4 فی صد زیادہ ہے۔ اس دوران بھارت نے چین نے 6.59 لاکھ کروڑ روپے کی مصنوعات درآمد کیں جو گزشتہ برس کی اس مدت کی درآمدات سے 49 فی صد زیادہ ہیں۔ اِسی مدت کے دوران چین نے بھارت سے 1.98 لاکھ کروڑ روپے کی مصنوعات درآمد کیں جو گزشتہ برس کی اِسی مدت کے دوران کی جانے والی درآمدات سے 38.5 فی صد زیادہ ہیں۔ اس وقت بھارت کو چین کے مقابلے میں تجارت میں 4.61 لاکھ کروڑ کی عدم موافقت کا سامنا ہے جو اب تک کی بلند ترین شرح ہے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ سرحدی تنازعات اور کشیدگی کے باوجود بھارت اور چین کے درمیان تجارت بڑھ رہی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آج بھی جنگ سے زیادہ اہم تجارت ہے۔ اگر کوئی ملک عالمی برادری میں بہتر تجارتی تعلقات کا حامل نہ ہو تو بربادی کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔ اب حقیقی جنگ کی ضرورت رہی نہیں۔
بھارت لاکھ دعوے کرے مگر آج بھی وہ مکمل خود انحصاری کی منزل پر نہیں۔ سرحدی یا سیاسی کشیدگی کی بنیاد پر چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا یا چین سے درآمدات پر امتیازی نوعیت کی ڈیوٹی عائد کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش نہیں کہلائے گا۔ بھارت کے بازاروں میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ چینی مصنوعات نے بھارتی بازاروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ چین کی مصنوعات بھارتی دیہات میں بھی دستیاب ہیں۔ روزمرہ استعمال کی بہت سی اشیا کے علاوہ پُوجا کے لیے مورتیاں بھی چین سے منگوائی جارہی ہیں۔ موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرانکس کے آئٹمز کے علاوہ دیگر سامان چین کا ہے اور وہ دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی آسن جمائے بیٹھا ہے۔ الیکٹرانکس اور متعلقہ ہارڈ ویئر کے شعبے میں بھی چین نے بھارت کو پچھاڑ رکھا ہے۔ بھارتی دیہات تک کی دکانیں چینی مصنوعات سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا ایسی حالت میں چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے؟
درآمدات پر خرچ کی جانے والی رقم سے اگر برآمدات سے حاصل شدہ رقم زیادہ ہو تو اِسے عام زبان میں منافع اور معاشی اصطلاح میں توازنِ ادائیگی کی موافقت کہا جاتا ہے۔ اگر درآمدات پر خرچ کی جانے والی رقم زیادہ ہو جائے تو اِسے تجارتی خسارہ کہا جاتا ہے۔ 2014 میں چین کے مقابل بھارتی کا تجارتی خسارہ 3.36 لاکھ کروڑ روپے تھا جو 2021 میں بڑھ کر 4.61 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ اعداد و شمار سے ایک بات تو طے ہے کہ ہم چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے چاہے جتنے بھی دعوے کریں، حقیقت یہ ہے کہ ہم چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں۔ اور مستقبلِ قریب میں بھی اِس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
بھارت بہت سی اشیا کا خام مال بھی چین سے منگواتا ہے اور یہ طلب ابھی کئی برس تک کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ 2014ء سے 2021 تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت نے کم قیمت والا خام مال چین کو برآمد کیا جبکہ چین سے مہنگا خام مال منگوایا گیا جس کا بڑا حصہ تعمیراتی شعبے کے لیے تھا۔ اس مدت کے دوران چین نے بھارت سے لوہا، پٹرولیم کی بنیاد والا ایندھن، کاربونک کیمیکلز، ری سائیکلنگ کاپر، گرینائٹ بلاک، روئی، کاٹن یارن وغیرہ درآمد کیا۔ بھارت نے چین کو مچھلی اور دیگر سی فوڈ، کالی مرچ، ویجیٹیبل آئل، چربی وغیرہ بھی برآمد کی۔
چین ٹو وھیلرز، تھری وھیلرز، فور وھیلرز، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کمپیوٹر اسپیئر پارٹس تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت کے لیے چین کی برآمدات میں الیکٹرانکس کا حصہ 20.6 فیصد، مشینری کا حصہ 13.4 فیصد، آرگینک کیمیکلز کا حصہ 8.6 فیصد اور پلاسٹک پروڈکٹس کا حصہ 2.7 فیصد ہے۔ چین کے لیے بھارتی برآمدات میں آرگینک کیمیکلز کا حصہ 3.2 فیصد اور سُوتی کپڑے کا حصہ 1.8 فیصد ہے۔ بھارت الیکٹریکل مشینری، مکینیکل آلات، آرگینک کیمیکلز، پلاسٹک اور آپٹیکل سرجیکل آلات سب سے زیادہ درآمد کرتا ہے جو اُس کی درآمدات کا 28 فیصد ہے۔
بھارتی قیادت قومی معیشت کو فروغ دینے اور درآمدات کا گراف نیچے لانے کے چاہے جتنے بھی دعوے کرے، حقیقت یہ ہے کہ چینی مصنوعات بھارت بھر میں بے حد مقبول ہیں۔ یہ چونکہ بہت سستی ہوتی ہیں اس لیے عام آدمی بھی اپنی ضرورت کے مطابق کوئی بھی چیز خریدنے میں زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتا۔ چینی قیادت نے لاگت قابو میں رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ کوشش یہ ہے اشیا بے حد سستی ہوں تاکہ ہزاروں میل دور سے آنے والے آرڈر میں شامل آئٹمز بھی عام آدمی کی قوتِ خرید کی حدود میں ہوں۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے ہی دوسرے بہت سے بڑی آبادی والے ممالک کے لیے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چین سے مقابلہ کرنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ بھارت خود ایک بڑی منڈی ہے اور وہاں صنعتی ڈھانچا بھی کمزور نہیں مگر اس کے باوجود چین کو شکست دینا بھارتی کاروباری برادری کے لیے اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ یہ حقیقت بھارت اور دیگر متعلقہ پس ماندہ ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے۔ اب تک کے منفی اقدامات چین کو کمزور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔