کراچی دھرنا۔ امید کی کرن

727

بارش کے بعد سخت سردی میں بھی سندھ اسمبلی کے باہرجماعت اسلامی کراچی کا دھرنا جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان پرعزم ہیں اوروہ دھرنے سے مطالبات تسلیم ہوئے بغیر اُٹھنے کو بھی تیار نہیں۔
جماعت اسلامی کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سندھ کے بلدیاتی قانون کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق تشکیل دیا جائے اوربلدیاتی اختیارات کو نچلی سطح پرمنتقل کیا جائے۔
جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح پرمنتقل کیے بغیر کراچی شہر کی حالت نہیں بدل سکتی،جبکہ سندھ اسمبلی سے منظورکیے گئے نئے بلدیاتی نظام میں پیپلزپارٹی نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لیے ہیں ،جس سے میئر کراچی کا عہدہ محض نمائشی ہو گا۔
نئے بلدیاتی نظام جسے کالا قانون کہا جارہاہے،میں سندھ حکومت نے تمام وہ اسپتال جوشہری حکومت کے تحت آتے تھے اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں،جبکہ دیگر وہ ادارے جوشہری حکومت کے ماتحت آتے تھے،انہیں بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، جبکہ بعض ٹیکسزکی وصولی کا نظام بھی اپنے کنٹرول لیا ہے۔
جماعت اسلامی ہرموقع پر عوامی مسائل پر احتجاج کرتی رہی ہے، نادرا میں لوگوں کے شناختی کارڈ زکے مسائل ہوں یا ’’کے الیکٹرک‘‘ کی اوور بلنگ کی،بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کے مسائل ہوں یا،سوئی گیس کے،سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین ہوں یا نسلہ ٹاور کے متاثرین کا مسئلہ جماعت نے عوامی مسائل کو حل کرانے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اس کے لیے ہرسطح پرآواز بھی بلند کی ہے۔
جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی پرگزشتہ 10 روز سے دھرنا دیا ہوا ہے اور یہ سندھ حکومت سے بلدیاتی قانون واپس لینے کے لیے ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ شہرقائد کو میگا سٹی کا درجہ دیا جائے، جماعت اسلامی کراچی نے سندھ حکومت کو بل کی منظوری سے قبل تجاویز بھی دی تھیں،مگر سندھ حکومت نے ان کی کسی تجویز پر عمل نہیں کیا۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی عددی اکثریت ہے اورتمام اپوزیشن جماعتیں اس وقت بلدیاتی بل کے خلاف یک زبان ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ قانون کسی طور بھی کراچی کے حق میں نہیں۔
کراچی 70فیصد ریونیو جمع کرکے وفاق کودیتا ہے،اس کا پیسہ اس کی ترقی پرنہیں لگایا جاتا ،یہ بڑا سوالیہ نشان ہے،جماعت اسلامی اس نکتہ پر بھی بات کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کی اس تحریک پراسے ایم کیو ایم کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست میں کوئی بھی الزام بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے سو پی پی نے بھی یہ الزام لگایا ہے،تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی سے متعلق ایسی بات کرنا مبالغہ آرائی ہو گی۔
کراچی میں سیاست تو تمام جماعتیں ہی کررہی ہیں،مگر جماعت اسلامی کی سیاست اور دیگر جماعتوں کی سیاست میں بڑا واضح فرق موجود ہے، دیگر جماعتوں کی سیاست جھوٹ اور مکروفریب کی سیاست ہے ،مال بنانے اور پیسہ کمانے کی سیاست ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست خدمت اور دیانت کی سیاست ہے۔
یہ بات جماعت اسلامی کے مخالفین بھی خوب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک منظم جماعت ہے۔اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتی ،نہ ہے اس کی سیاست کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔یہ تو ہمیشہ ہی کراچی کے مسائل کے حل کی بات کرتی نظر آئی ہے۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ شہرقائد کو اس کا اصولی حق ملے، یہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں۔یہاں پانی کا مسئلہ ختم ہو۔ یہاں کراچی کے نوجوانوں کو روزگار ملے،یہاں کے لوگوں کے مسائل گلی محلے کی سطح پر حل ہوں۔
سندھ کے وزیراطلاعات سعید غنی نے ہفتے کو کراچی پریس کلب میں ’’میٹ دی پریس‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جماعت اسلامی ایم کیوایم کی طرز کی لسانی سیاست کر رہی ہے۔انہوں نے شہر میں جو بینرآویزاں کیے وہ ایم کیو ایم کے ماضی میں لگائے جانے والے بینرز جیسے ہیں۔ جماعت اسلامی لسانیت کو فروغ دے رہی ہے۔دھرنوں یا احتجاج سے ہمیں مجبور نہیں کیا جاسکتا ،اسمبلی میں اکثریت کا فیصلہ چلتا ہے۔ گنجائش ہو تو قانون میں جائز تبدیلی ہو سکتی ہے، جماعت اسلامی سے پہلے بھی ملے اب بھی ملاقات کریں گے۔
پیپلزپارٹی سندھ پر مسلسل 13 سال سے حکومت کررہی ہے، جبکہ ایم کیو ایم گزشتہ 35 برس سے سیاسی عمل کا حصہ ہے اور ہر سندھ حکومت کا حصہ بنتی رہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آن کی آن میں شہر قائد کو ایک حکم پر سنسان کردینے اور ایک دن کی ہڑتال کر کے ملک کی معیشت کو 10 ارب کا نقصان پہنچانے والی ایم کیوایم نے بے مثال طاقت رکھنے کے باوجود یہاں کے باسیوں کو پانی، گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ، گلی محلوں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور شہر میں قتل وغارت گری کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔
لوگ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے کبھی لسانی سیاست نہیں کی، یہ بات پیپلزبارٹی خود اچھی طرح سے سمجھتی اور جانتی ہے۔ کراچی میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی،مگر یہ بھی مکمل ناکام نظر آتی ہے۔
وزیراعظم کا اعلان کردہ 1100 ارب روپے کا پیکیج ہواؤں میں اُڑ گیا۔الفاظ کے ہیرپھیر سے حساب بتایا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب اہل کراچی کے معیارزندگی کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے، جماعت اسلامی کو یہاں کے لوگ اپنے لیے امید کرن سمجھ رہے ہیں، کیونکہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی بطور میئر اور سٹی ناظم خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
جماعت اسلامی اس دھرنے کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں کے لیے یہ مقدمہ جیت لیتی ہے تو سمجھ لیجیے اس شہرکی تعمیر کے نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ اگر سندھ حکومت نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال تو اس کا نقصان بھی سندھ حکومت کو ہوگا۔