معرکہ موسیٰؑ و فرعون کیا آج بھی برپا ہے؟

631

رات حافظ نعیم الرحمن کی تقریر کے بعد سے دل بے چین ہے، میں کوئی لکھاری تو نہیں مگر اپنے کچھ احساسات، ذہن میں آنے والی بکھری بکھری باتیں، ذہن میں اُٹھنے والے سوالات اور موجودہ آزمائشی حالات میں کچھ کرنے کے کام کے حوالے سے کچھ گزارشات اراکین جماعت کو خصوصاً کارکنان و حامیان کو عموماً بتانا چاہتا ہوں۔
آزمائش کی سخت گھڑی جو کہ اس طرح اب تک ہم پر نہیں آئی تھی جس میں ہمیں اپنے بیوی، بچے، گھربار، کام و کاروبار، دفاتر و دکان، گاڑی و مکان سب چھوڑ کر روڈ پر آنا پڑا ہے۔ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو کہ 24 گھنٹوں پر محیط ہے، جس میں اگر آپ دن میں وقت نہیں دے سکتے تو آپ رات میں آسکتے ہیں، صبح مصروف ہوں تو شام میں آسکتے ہیں اور اگر آپ معذور و بیمار بھی ہیں اور وہاں پہنچ سکتے ہوں تو صرف جا کر بیٹھ بھی سکتے ہیں، ویسے بھی آج کل دن میں دھوپ میں بیٹھنا زیادہ مشقت والا کام نہیں۔ وہاں الحمداللہ انفاق فی سبیل اللہ کی بہترین صورت بھی آپ کو نظر آئے گی کہ جس میں آپ کو آپ کی نشست پر ہی کھانا، چائے، کافی، سوپ و دیگر لوازمات سے نوازا جارہا ہے۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں (خدانخواستہ) الخدمت میڈیکل وین اور ہیلپ ڈیسک موجود ہے، مساجد بھی دھرنا مقام سے 100 اور 200 میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں جو کہ 24 گھنٹے آپ کے لیے گرم پانی کے ساتھ کھلی رکھی گئی ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے شہادت حق ناصرف پڑھی ہے بلکہ کسی حد تک اس کا عملی نمونہ بھی معاشرے میں پیش کیا ہے، مگر آج کی یہ عملی شہادت شاید آپ کو آمادہ و تیار کرنے میں مانع ہے اور آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات پرورش پارہی ہے کہ یہ ایک بے مقصد اور خود کو آزمائش میں ڈالنے والا کام ہے، تو اس سلسلے میں ہمیں انبیا کرام کے واقعات و حالات سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بت اپنے ہاتھ سے توڑے تھے جو کہ آج کے حالات کے تناظر میں ایک بے مقصد اور خود کو آزمائش میں ڈالنے والا کام محسوس ہوتا ہے، آپ نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا ہوگا، معاشرے میں عمومی دعوت دینے کے بعد بالآخر آپ نے وہ راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں مزاحمت پیدا ہوئی اور بالآخر آپؑ کو آگ میں ڈالا گیا۔
خود آپؐ کی 15 سالہ دعوتی جدوجہد (قولی شہادت) میں جنگ بدر کے موقع پر 313 صحابہ موجود تھے۔ اس کے بعد 8 سالہ جہادی (عملی شہادت) جس میں غزوات و سرایہ برپا ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ صحابہ کرام موجود تھے۔
حضرت موسیٰؑ وہ پیغمبر ہیں جن کا تذکرہ قرآن میں بار بار ہوا ہے اور فرعون کے ساتھ ان کے معرے کا پورا احوال کئی سورتوں میں بار بار تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ روزہ یا ان کے بعد دوسرا بنیادی رکن اور حج آخری بنیادی رکن ہے، پورے قرآن میں ان دونوں اراکین اسلام کا حکم/ تذکرہ صرف ایک اور دو مقامات پر ہوا ہے۔ جب کہ موسیٰؑ اور فرعون کا تذکرہ درجنوں سورتوں میں آیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک سیاسی کشمکش تھی جس کا مقابلہ امت کو قیامت تک کرنا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ہر دور کا ایک موسیٰؑ اور ہر دور کا ایک فرعون ہوگا اور جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
بظاہر موسیٰؑ اور فرعون کا مقابلہ کھیل تماشا تھا، جو کہ اس وقت ایک تہوار کے موقع پر ہورہا تھا مگر اس کا نتیجہ بہت اہم تھا، جس نے آئندہ کی سیاسی کشمکش میں اہم کردار ادا کرنا تھا، ہوا بھی ایسا ہی جس کے نتیجے میں موسیٰؑ کو ایک سخت آزمائش سے گزرنا پڑا اور بالآخر فرعون اللہ کے غضب کا شکار ہو کر قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بن گیا۔
میرے عزیز تحریکی ساتھیوں ہم بھی اس درپیش مقابلے کو جو کہ بظاہر روڈ پر ہے اور اس کا ایک مقصد بھی ہے اس کو نظر انداز کررہے ہیں اور اہیت کم دے رہے ہیں خدارا ہماری یہ جدوجہد اور کوشش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں اب پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ لہٰذا آپ خود بھی بڑی تعداد میں روزانہ نکلیں اور کچھ نہ کچھ وقت ضرور دیں اور عام لوگوں کو بھی اس میں شامل کروائیں۔ ویسے بھی یہ ایک عوامی مسئلہ ہے، ہماری اب تک کی جدوجہد کے نتیجے میں لوگوں کے دل بھی ہماری طرف مائل ہوئے ہیں، ان حالات میں لوگوں کونکالنا نسبتاً آسان بھی ہورہا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ پہلے ہم خود نکلیں، عملی شہادت کا ثبوت دیں، آپ کی تھوڑی سی کوشش ان شاء اللہ مستقبل میں حقیقی اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور اس مختصر زندگی میں اگر آپ اپنی آنکھوں سے انقلاب نہ بھی دیکھ سکیں تو ان شاء اللہ جنت ضرور آپ کی منتظر ہوگی۔