عالمی طاقتیں اپنے جھگڑوں کیلئے چھوٹی ریاستوں کو میدان بناتی ہیں

514

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) عالمی طاقتیں اپنے جھگڑوں کے لیے چھوٹی ریاستوں کو میدان بناتی ہیں‘سرمایہ داروں کے مشترکہ مفادات کی وجہ سے بڑی طاقتو ں کی خلا میں جنگ کا امکان نہیں‘چاند پر پلاٹ فروخت کیے اور ہائوسنگ اسکیمیں متعارف کرائی جا رہی ہیں ‘ مستقبل میں ممالک کا نہیں بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خلا میں قبضہ ہوگا‘ عالمی طاقتوں نے فضائیہ کی مدد، جاسوسی اور سگنل جام کرنے کے لیے ائر اسپیس کمان تیار کی ہوئی ہے۔ان خیالات کا اظہار سابق سر براہ پاک فضائیہ ائر چیف مارشل سہیل امان، امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال اور کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر معروف تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بڑی طاقتوں کے درمیان آئندہ جنگ خلا میں لڑی جائے گی؟‘‘ سہیل امان نے کہا کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی وجہ سے عالمی قوتیں آپس میں لڑائی کا سوچ بھی نہیں سکتیں‘ آج کل دنیا میں معاشی جنگیں لڑی جاتی ہیں‘ فارجنریشن وار فیئر ہوتا ہے‘ اس لحاظ سے عالمی قوتیں نیوکلیئر جنگ سے اجتناب برتی ہیں‘ بھارت اور پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے‘ اتنے خراب حالات کے باوجود جنگ نہیں ہوتی‘ اسپیس کے لیے ہتھیار ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہیں‘ اس پر بلین، بلین ڈالرز کا خرچہ ہے‘ یہ بات درست ہے کہ اسپیس کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ اس میں سب سے اہم کام جاسوسی کا ہے جو دشمن ممالک پر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ زمین میں فوج اور فضا میں پائلٹس کو بھی سٹیلائٹس کی مدد سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں‘ ریڈیو سسٹم کے تحت ہی ٹینکوں اور جہازوں میں جی پی ایس نظام کے ذریعے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا ہے اور انہیں درست معلومات فراہم کی جاتی ہیں‘ائر کرافٹ اور آرٹلری ہتھیار اسپیس سے ہی معلومات حاصل کرکے استعمال کیے جا تے ہیں‘ جہازوں کی نیوی گیشن بھی بہت اہمیت کی حامل ہے تاکہ جہازوں اور میزائل سسٹم کے تحت طویل فاصلے تک درست سمت میں ہدف پر نشانہ لیا جاسکے۔ اس وقت نیوکلیئر جنگ براہ راست لڑنا تو بہت مشکل ہے لیکن بل واسطہ جنگوں میں آئندہ آنے والے وقت میں اسپیس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جائے گی‘ بالٹک ریجنز کی اسپیس کے ذریعے ہی دشمن کے الیکٹرونکس آلات اور فوجی نقل وحرکت کی نگرانی کر کے انہیں اچھی طرح نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘ ریڈیو ایکئوپمنٹس کے سگنل جام کیے جاسکتے ہیں ‘ سگنل کے جام ہونے کی وجہ سے جہاز، ریڈار، میزائل اور کمیونیکیشن سسٹم کو باآسانی تباہ کیا جاسکتا ہے‘ عالمی طاقتوں نے ائر اسپیس کمان تیار کی ہوئی ہے جو ان کی فضائیہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے‘ پاکستان بھی اسپیس پروگرا م اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر چلا رہا ہے‘ ہم اپنے اسپیس پروگرام کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں‘ دراصل اسپیس پروگرام بہت زیادہ اخراجات مانگتا ہے‘پاکستان کے دفاعی سسٹم میں اسپارکو کا بہت اہم کردار ہے‘ پاکستان بہرحال ابھی اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ اسپیس کی جنگوں کا حصہ بن سکے۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ عالمی طاقتیں جنگ کو خلا میں لے جائیں گی ‘گزشتہ سالوں میں بھی روس کے اینٹی سٹیلائٹ ہتھیاروں کے تجربے نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا جب روس نے بغیر کسی اطلاع کے آرکٹک سرکل میں قائم پلیسٹیک کوسمو ڈروم سے میزائل فائر کیے جنہوں نے تقریباً ساڑھے 5 سو کلومیٹر کا زمین سے خلا میں فاصلہ طے کر کے ایک پرانے سوویت دور کے جاسوسی سیٹلائٹ کوسموس کو تباہ کیا تھا جس کے بعد سے عالمی طاقتوں نے اپنی خلا کی پالیسی کو تبدیل کر کے اپنی سٹیلائٹ کی حفاظت کے لیے ائر اسپیس کمان تیار کی‘ جو ان کی فضائیہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ریاست کو دفاعی طور پر مدد فراہم کرتی ہے‘ عالمی طاقتیں آپس میں کم ہی لڑتی ہیں‘ وہ تو زیادہ تر چھوٹی ریاستوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اس لیے عالمی طاقتوں کے درمیان لڑائی کے امکانات کم ہی ہیں‘ مسلم ممالک کو اس تمام تر صورت حال میں اپنی دفاعی صلاحیتوںکو بڑھانا چاہیے تاکہ وہ بڑی قوتوں کے محتاج نہ رہیںاور بڑی قوتیں انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کا کلیدی کردار ہوتا ہے‘ عالمی طاقتیں خلا سے آگے بڑھ کر اب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ظاہر ہے کہ وہاں کچھ مسائل بھی درپیش ہوسکتے ہیں مگر میں نہیںسمجھتا کہ وہ خلا میں جنگیں لڑیں گی‘ مستقبل کے دفاعی نظام میں خلا کا اہم کردار ہے‘ ابھی اس پر عالمی طاقتیں مل کر کام کر رہی ہیں‘ ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ اپنا سٹیلائٹ خلا میں بھیجے‘ خلا میں سٹیلائٹ کی اپنی لوکیشن ہوتی ہے اور وہ اس ہی مدار میں گردش کرتا ہے‘ پاکستان جی پی ایس کمیو نیکشن سسٹم استعمال کرتا ہے‘ یورپی ممالک کا اپنا کمیو نیکشن سسٹم ہے‘ چین بھی اپنا کمیو نی کیشن سسٹم استعمال کر رہا ہے‘ عالمی قوتیں ایک دوسرے کے سٹیلائٹ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں مگر اس وقت ہر کسی کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ اس کے باوجود ہر ملک نے دفاعی معاملے میں اپنے کمیونی کیشن کے لیے متبادل نظام کا بندوبست کیا ہوا ہے‘ اسی طرح پاکستان بھی اپنے دوست ممالک کے کمیو نی کیشن سسٹم سے جڑا ہوا ہے تاہم وہ سسٹم ابھی اتنا پاور فل نہیں ہے۔ ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے کہا ہے کہ سٹیلائٹ اپنی ایجاد کے بعد سے ہی ریاستوں کی جاسوسی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں‘ اب یہ ٹیکنالوجی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ زمین سے خلا میں داخل ہوکر اینٹی سٹیلائٹ ہتھیاروں سے مخالف جاسوسی سٹیلائٹ کو تباہ کیا جا سکتا ہے‘اس حوالے سے خلا میں ملبہ پھیلنے پر بھی بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے‘ ایسی صورت حال میں بھی میرا نہیں خیال کہ عالمی طاقتوں کے درمیان خلا میں جنگ کا کوئی امکان ہے‘ یہ بات قابل غور ہے کہ خلا میں قبضہ یا غلبہ ریاستوںکا ہوگا یا پھر ملٹی نیشنل کمپنیوںکا‘ کیونکہ سر مایہ داروں کی ملکیت کا تصور تو اس وقت دنیا میں غالب نظر آ رہا ہے‘ جان لاک کے سرمایہ درانہ تصور کے بعد تاریخی طور پر جنگوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ‘ بلاشبہ زمین کے ساتھ خلا میں بھی انسان کے نظریات پہنچ چکے ہیں اور مستقبل میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خلا میں قبضہ دکھائی دیتا ہے‘ چاند پر پلاٹ فروخت کیے جا رہے ہیں اور ہاؤسنگ اسکیم کا تصور پیش کر دیا گیا ہے‘ ایسی صورت حال میں ریاست سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں یا سرمایہ داروں کا سٹیلا ئٹ پر غلبہ ہے ‘ماضی میں چین اور امریکا کے مابین سخت کشیدگی کے باوجود جنگ کا نہ ہونا اس بات کا غماز ہے کہ سر مایہ داروںکے مفادات جنگ میں نہیں ہے ‘ہالی وڈ کی خلا سے متعلق بنائی گئی فلموں میں بھی سرمایہ داروںکا غلبہ دکھایا گیا ہے‘ خلا میں مختلف ریاستوں کے سٹیلائٹ ہیں تاہم سب کے مفادات مشترکہ ہیں‘ ایسی صورت حال میں عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے امکان موجود نہیں ہیںکیونکہ جنگ کی صورت میں سرمایہ داروں کے مفادات پر کاری ضرب آسکتی ہے۔