نجکاری لاکھوں افراد کی بیروزگاری اور حکومت کے ریونیو میں کمی سبب بنی

866

(رپورٹ: قاضی سراج)

ایک زمانہ تھا کہ حکمرانوں نے بڑے بڑے نجی صنعتی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ان اداروں میں کھپادیا ۔ منظور نظر کارکن اداروں پر بوجھ بن گئے۔ ان کی لوٹ مار، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے قومیائے گئے ادارے خسارے میں جانے لگے تو حکمرانوں نے قومی اداروں کو نجکاری کے نام پر نجی تحویل میں دینا شروع کر دیا۔ نجکاری کے عمل میں شفافیت کہیں نظر نہیں آئی بلکہ بڑے بڑے قومی اداروں کو مفاد پرستوں نے زمینوں کے حصول کے لیے کوڑیوں کے مول خرید لیا۔ میٹرو پولیٹن اسٹیل کارپوریشن، برما آئل، ای ایم آئل، سندھ الکلیز، کوالٹی اسٹیل، پی وی سی گھارو، ذیل پاک سیمنٹ، ٹھٹھہ سیمنٹ ودیگرسمیت درجنوں ادارے بند ہوگئے۔ ان نجی مالکان نے بڑی رقم حاصل کرکے دوسروں کو فروخت کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ سندھ الکلیز، PVCگھارو اور بعض اداروں کے مزدوروں کو تو واجبات بھی نہیں ملے۔ نجی مالکان نے نہ صرف ادارے بند کردیے بلکہ مزدوروں کو بے روزگار اور کوڑیوں کے مول لی گئی فیکٹری اور اراضی پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنالی اور اربوں کھربوں روپے بنالیے ‘ ان سب کی نجکاری میں حکومت ‘ اعلیٰ سرکاری افسران ‘ بیوروکریسی ملوث رہی ‘پاکستان اسٹیل کی نجکاری عدالت عظمیٰ نے روک دی۔ لیکن حکمران طبقات اب بھی قومی اداروں کو اپنے مفاد کی خاطر مزدوروں کا قتل عام کرنے کے درپے ہیں۔ان خیالات کا اظہارILO گورننگ باڈی کے ممبر، پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سابق صدر اور سینئر مزدور رہنما ظہور اعوان‘نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی‘نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان‘سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر شفیق غوری ‘پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر اور حبیب بینک ورکرز فرنٹ کے بانی حبیب الدین جنیدی ‘پاکستان اسٹیل لیبر یونین ’’پاسلو‘‘ کے صدر علی حیدر گبول‘PIA ایمپلائز یونین پیاسی کے جنرل سیکرٹری محمد احمد‘پاکستان مزدور محاذ پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات شمیم چودھری نے جسارت کے سوال قومی اداروں کی نجکاری کے محنت کشوں پر اثرات؟ کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ ظہور اعوان نے کہا کہ نجکاری کے بارے میں لیبر پالیسی 2002ء کے اندر ٹریڈ یونینوں کی کاوش سے یہ نکتہ ڈالا گیا تھا کہ کسی بھی نجکاری کے عمل میں متعلقہ ادارے کے ورکرز یعنی اُن کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ٹریڈ یونینوں کا یہ استدلال ہے کہ نجکاری کا عمل اگر ناگزیر ہے تو ورکرز کو حاصل شدہ مراعات اور ورکرز کی تعداد میں آنے والے خریدار کمی نہیں کریں گے اور نجکاری میں نفع نقصان کے ذمہ دار نہیں بنیں گے۔ جہاں تک نجکاری میں شفافیت کا تعلق ہے محکمہ نجکاری کے تمام چیئرمین باری باری کرپشن کی وجہ سے جیل میں گئے۔ مثال کے طور پر واپڈا کی نجکاری سے پہلے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری ہی ورکرز کے لیے لمحہ فکر ہے کہ نجکاری کے بعد ادارے کی کارکردگی میں مسلسل گراوٹ آئی اور اس ادارے میں مسلسل ورکرز کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آرہا ہے‘مزدوروں کے حقوق کو سلب کیا ہوا ہے۔ نجکاری سے پہلے 11 ہزار ورکرز میں سے 9 ہزار مستقل ورکرز تھے اور آج 11 ہزار میں سے 2 ہزار مستقل ورکرز ہیں۔ یہی صورت حال بینکوں، مالیاتی اداروں اور دیگر پرائیویٹ اداروں کی ہے جو نجکاری کی زد میں آئے۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ نجکاری سے قومی آمدنی کم اوربے روزگاری بڑھے گی۔ماضی میں 200 سے زیادہ ادارے نجکاری کی نظر کیے گئے اور کہا گیا کہ نجکاری سے حاصل سرمائے سے بیرونی قرض ادا کیے جائیں گے،صنعتی انقلاب آئے گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے‘تاہم نہ توقرض کی ادائیگی ہوسکی نہ صنعتی انقلاب برپا ہوا‘ اور نجکاری سے حاصل رقم بھی نہ جانے کہاںگئی‘ بڑے بڑے کارخانوں کی جگہ بڑے بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹ بنا دیے گئے ‘ملک مزید قرضوں کے بوجھ کے نیچے دب گیا بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ایک منافع بخش ادارہ پی ٹی سی ایل تھا‘ 70 ہزار افراد کو روزگار میسر تھااس کی نجکاری کردی گئی آج 10 ہزار لوگ اس میں کام کرتے ہیں۔ہزاروں افراد کو بیروزگار کردیا گیا‘پی ٹی سی ایل جو ریونیو اور ٹیکس حکومت کو دیتا تھاوہ کم ہوگیا ‘PTCL کے اثاثوںکی قیمت اتصالات نے ادا کرنا تھی ‘ آج تک رقم پاکستان کو وصول نہیں ہوئی۔ اب ریلوے کی بہترین اور قیمتی اراضی کے سودے کیے جارہے ہیں ‘اسی طرح پی آئی اے کو بھی سیاسی بھرتیوں اور ریلوے کی طرح حکمرانوں کی کرپشن نے تباہ کیا یہی کچھ پاکستان اسٹیل کے ساتھ بھی کیا گیا‘ نجکاری آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ایجنڈا ہے۔ وہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ظفر خان نے کہا کہ پاکستان میں نجکاری IMF کے کہنے پر شروع ہوئی۔ مگر یہ ابتدا سے ہی غیر شفاف اور حکومتوں کے منظور نظر افراد اور کمپنیوں کو بندر بانٹ کا ذریعہ رہی ہے۔ جاوداں سیمنٹ فیکٹری نجکاری کے بعد بند کردی گئی اور اس کی زمین پر رہائشی اسکیم بنادی گئی۔ غرض یہ کہ نجکاری سے نہ ہی ملک کے مالیاتی خسارے میں کوئی کمی ہوئی اور نہ ہی عوام اور ملازمین کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوا۔ شفیق غوری نے کہا کہ نجکاری کے نہ صرف مزدوروں پر بدترین اثرات پڑے بلکہ ملکی معیشت اور عوام الناس بھی منفی رویہ کا شکار ہوئے۔ اس عمل نجکاری کا آغاز ہی بدترین اقربا پروری و ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے صرف بندر بانٹ ہی کہا جاسکتا ہے۔ نجکاری کے بعد تقریباً تمام مالکان نے روزگار کی فراہمی کے بجائے ڈائون سائزنگ و رائٹ سائزنگ کے نام پر لوگوں کو بے روزگار کردیا اور اپنی مصنوعات و خدمات کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کیا بلکہ بہت سے نجی صنعت کاروں نے تو حکومت سے اس بنیاد پر قرض حاصل کیا‘ جبکہ کچھ نے کارخانے کی زمین پر ہائوسنگ اسکیموں کے ذریعے کثیر دولت کمائی۔ حبیب الدین جنیدی نے کہا کہ قومی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا تجربہ نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں نجکاری کے عذاب کو مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھرپور ریاستی طاقت کے ساتھ محنت کش عوام پر مسّلط کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ ہم نجکاری کو دنیا کے سیاسی نظام پر سرمایہ داروں اور بڑی بڑی تجارتی کمپنیز کے تسلط اور آمریت سے تعبیر کرتے اور ایشیاء، افریقا، لاطینی امریکا اور پاکستان جیسے غریب ممالک اور اْن کے عوام کے جمہوری اور معاشی حقوق پر ڈاکازنی تصور کرتے ہیں۔ علی حیدر گبول نے کہا کہ جن اداروں کی نجکاری کی گئی وہاں سے لاکھوں مزدور نکال دیے گئے۔ ٹیکس وصولی میں کمی آئی ملکی معیشت میں بہتری کے بجائے بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ ہزاروں خاندان جو خوشحال زندگی گزار رہے تھے بدحالی کا شکار ہوگئے۔ سیکڑوں ملازمین بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرگئے۔ محمد احمد نے کہا کہ ملکی اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے پہلے انتظامی مسائل سے دوچارکیا جاتا ہے،اس کے مالی معاملات میں بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے۔ یوں اس کی بدحالی کو جواز بنا کر نجکاری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔نجکاری کے بجائے اس ادارے کو مزدور سے شراکت داری میں دے دیا جائے تو ادارے اور مزدور کے حق میں زیادہ اچھا ہوگا۔ عبدالوہاب بلوچ نے کہا کہ1991 میں پرائیویٹائزیشن کمیشن قائم کیا گیا۔ جس کے ذریعے 100 صنعتی کاروباری اداروں سے 60 اداروں کو کوڑیوں کے مول فروخت کر دیا گیا اور 1994 میں ان کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو حکومت کے قرضے کم ہوئے اور نہ ہی غربت میں کمی ہوئی بلکہ نجکاری کی وجہ سے 6 لاکھ محنت کشوں کو بیروزگار کر دیا گیا اور ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں مکمل پھنسا دیا گیا۔ شمیم چودھری نے کہا کہ آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں سرمایہ دار حکومتیں قومی اداروں کی نجکاری پر زور دے رہی ہیں۔ اداروں کی نج کاری میں تیزی اس وقت آئی جب برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور امریکی صدر ریگن نے دنیا پر اپنا نیو ورلڈ آرڈر مسلط کیا۔ حکمران نہ صرف اپنے قومی ادارے اونے پونے فروخت کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنا اسٹیٹ بینک بھی ان کی نگرانی میں دے دیا ہے ۔ نج کاری ایک نئی طرز کی غلامی کا نام ہے۔ کیونکہ نجی ملکیت کے اداروں میں ملازمین کا واسطہ ٹھیکیداری جیسی لعنت سے پڑتا ہے اور نجی ادارے مزدوروں کو قانونی مراعات تک دینے کو تیار نہیں ہوتے۔