تعمیرات سے متعلق آرڈیننس گورنر کو ارسال ،سندھ بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن بند کرنے کا فیصلہ

417

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ حکومت نے خلاف ضابطہ تعمیرات سے متعلق آرڈیننس گورنر کو ارسال کردیا جبکہ صوبے بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خلاف ضابطہ تعمیر کی جانے والی رہائشی عمارتوں ودیگر تعمیرات کو ریگولرائز کرنے سے متعلق مجوزہ آرڈیننس گورنر سندھ عمران اسماعیل کو بجھوا دیا ہے‘مجوزہ آرڈیننس کے تحت عارضی طور پر سندھ بھرمیں انسداد تجاوزات آپریشن روک دیا جائے گا‘ آرڈیننس کی منظوری کے بعد عمارتوں کو گرانے کا حکم نامہ از خود 90 روز کے معطل ہوجائے گا‘ آرڈیننس کے کسی بھی حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا‘ آرڈیننس کو سندھ کمیشن فارریگولرائزیشن آف کنسٹرکشن کا نام دیا گیا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کاسیشن جاری نہیں ہے اس لیے آرڈیننس جاری کیا جائے۔ حکومت سندھ کے مجوزہ آرڈیننس میں خلاف ضابطہ تعمیرات رہائشی عمارتوں کوریگولرائزکرنے کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ مشیر قانون، سیکرٹری محکمہ بلدیات و ٹائون پلاننگ اور آباد کا چیئرمین کمیشن کے ممبرز ہوںگے‘ کمیشن کی مدت ایک سال ہوگی۔ آرڈیننس کے متن کے مطابق غیر قانونی تعمیرات سے مراد نجی تعمیرات یا وہ منصوبہ جو فروخت کردیا گیا ہو، لیا جائے گا۔ مجوزہ آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کی سفارش پر غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘کمیشن کو بلڈرز پر جرمانہ عاید کرنے کا اختیار ہوگا آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ کمیشن غیر قانونی تعمیرات کی ریگولرائزیشن کا فیصلہ کرے گا اور کمیشن ریگولرائزیشن کے لیے کسی فرم یا کمپنی کی خدمات حاصل کرسکے گا۔ کمیشن کے لیے وزیر اعلی 15 روز میں ممبران کا تقرر کرنے کے پابند ہوںگے جبکہ کمیشن کو دفتر، فنڈز اور درکار وسائل صوبائی حکومت فراہم کرے گی‘ کمیشن غیر قانونی تعمیرات کی ریگولرائزیشن کا فیصلہ 60 روز میں کرے گا۔ اس کا اطلاق پورے سندھ پر ہوگا۔ آرڈیننس کا اطلاق کنٹونمنٹ کے علاقوں اور وفاقی حکومت زیر کنٹرول زمینوں پر نہیں ہوگا اورآرڈیننس کا اطلاق کوآپریٹو سوسائٹیز کچی آبادیوں پر بھی ہوگا۔علاوہ ازیںسندھ حکومت کے ترجمان و مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بدھ کو سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں عمارت مسمار کی جاتی ہے‘ یہ عمل بنی گالا میں کیوںنہیں ہوتا ‘نسلہ ٹاور کی زمین سندھ حکومت نے الاٹ نہیں کی تھی‘ سندھی مسلم سوسائٹی ہمارے تحت کام نہیں کرتی‘ سال 2007ء میں اس پراپرٹی کو کمرشلائزڈ کیا گیا تھا اس وقت مصطفی کمال شہر کے ناظم تھے‘ یہ زمین در حقیقت کے ایم سی کی ہے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال جان لیں یہ 1990ء کا اور 12 مئی کا کراچی نہیں ہے کہ دھمکی آمیز رویے سے بات کریں‘ آج کے کراچی میں لوگوں کو آزادی حاصل ہے ‘خالد مقبول صدیقی کو صرف یہی کہوں گا کہ تفریق کی سیاست ختم کریں۔ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ایم کیو ایم سے سوال کیا کہ سوا 3 سال سے آپ وفاق میں ہیں‘ اس دوران عمران خان اور آپ نے اس شہر کے لیے کیا کیا؟ جو تعمیرات نالوں پر ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن ایسی عمارتیں جو بن چکی ہیں اور پانی کے بہائو کو متاثر نہیں کر رہی ہیں تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے‘ وہ لوگ جو نسلہ ٹاور پر کھڑے ہوکر پریس کانفرنس کرتے ہیں انہوں نے اسمبلی سے راہ فرار اختیار کرلی‘ پیپلز پارٹی نے قانون سازی کے لیے ڈرافٹ تیار کرکے وزیر اعلی کو بھیج دیا ہے‘ اس آرڈیننس کو گورنر کو بھجوا دیا گیا ہے‘ امید ہے کہ گورنر آرڈیننس کے ڈرافٹ کی منظوری دے دیں گے‘ آرڈیننس کی منظوری اسمبلی سے بھی لی جائے گی‘ پنجاب میں جس طرح یہ قانون آیا ہے اسی طرح کا سندھ میں ہے صرف ایک پیرا شامل کیا گیا ہے کہ اینٹی انکروچمنٹ ڈرائیو کو فوری طور روک دیا جائے جب تک کمیٹی فیصلہ نہیں کرتی۔