کشمیر کا مقتل

682

کشمیر میں جعلی پولیس مقابلے بھارت کا پرانا حربہ اور ہتھکنڈہ ہیں۔ جب بھی بھارتی فوج کو حریت پسندوں کے ہاتھوں شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا اور عوامی نفرت نے جابجا فوجیوں کا استقبال کیا تو اس کا غصہ انہوں نے ہمیشہ بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کو فرضی پولیس مقابلوں میں شہید کرکے لیا۔ جب سے کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا بھارت نے سیکڑوں جعلی پولیس مقابلوں میں ہزاروں افراد کو کسی قسم کے عدالتی اور قانونی عمل سے گزارے بغیر شہید کر دیا۔ بھارتی فوج کے پاس مرکزی قوانین کی صورت میں کسی بھی انسان کو قتل کرنے کا لائسنس پہلے ہی موجود ہے۔ ایسی کسی بھی کارروائی کے دوران مرنے والے کو یا تو حریت پسند قرار دیا جاتا ہے یا پھر اسے کراس فائر کی زد میں آنے والا قرار دیا جاتا ہے اس کے بعد معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ مرنے والے کے عزیر واقارب چند دن رو دھو کر خاموش ہوجاتے ہیں اور بھارتی فوجی تازہ دم ہو کر کسی اگلے شکار اور اگلے فرضی مقابلے کی تیاری کی منصوبہ بندی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس بار ایسا نہ ہوا بلکہ ایک جعلی مقابلے کے انجام پزیر ہوتے ہی ایسا ہی معصوم لہو نے بولنا اور چلانا شروع کیا۔ اس واقعے نے پورے کشمیر کو سوگوار کر دیا بلکہ معصوم اور روتے بلکتے بچوں کی تصویروں نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں بھارتی فوج نے یہ اعلان کیا کہ دو حریت پسندوں نے ایک مکان میں پناہ لے رکھی ہے۔ بھارتی فوج نے مکان کا محاصرہ کیا اور میڈیا کو علاقے میں جانے نہیں دیا اور یوں گولیاں چلا کر دنیا کو ایک خطرناک تصادم کا تاثر دیا جانے لگا۔ پہلے ایک پھر دو اور آخر پر چار افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ ان میں دو افراد کو حریت پسند اور ایک کو ان کا سہولت کار جبکہ ایک کاروباری شخص الطاف احمد کو کراس فائر میں مارا جانے والا قرار دیا گیا۔
بھارتی فوج اپنی کہانی سنا کر خاموش ہو گئی مگر دو افراد الطاف احمد اور ڈاکٹر مدثر کے رشتہ داروں نے بھارتی پولیس کی رپورٹ مسترد کر دی اور کہا کہ ان کے عزیز بے گناہ تھے اور انہیں ہومن شیلڈ کے طور پر مار ا گیا۔ الطاف احمد کی ننھی بیٹی نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے جب پولیس اہلکاروں سے اپنے باپ کے بے گناہ ہونے کا کہا اور لاش مانگی تو وہ بے شرمی سے ہنس رہے تھے۔ ان دونوں افراد کے لواحقین اب اپنے پیاروں کی لاشیں طلب کر رہے ہیں مگر بھارتی فوج انہیں کہیں دور قبرستان میں لے جا کر دفن کردیا تھا۔ کئی سیاسی افراد نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر لواحقین نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور وہ صرف اپنے عزیروں کی لاشیں مانگ رہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے سری نگر کی پریس انکلیو میں یخ بستہ رات کو دھرنا بھی دیا۔ دو روز کے شدید احتجاج کے نتیجے میں بھارت کے اعصاب چٹخ گئے اور انہوں نے دو لاشوں کو قبروں سے نکال کر لواحقین کے حوالے کیا اور یہ ہدایت کی انہیں رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے۔
بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں مخالفت کی ہر آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو کا حامل علاقہ ہے۔ دنیا میں شاید ہی اس قدر کم آبادی اور محدود رقبے کے حامل علاقے میں فوج کی اتنی بڑی تعداد مسلط ہو۔ اب بھارت نے کشمیر کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پانچ ہزار پیرا ملٹری فورس پر مشتمل پچاس مزید کمپنیاں اتاری ہیں۔ یہ تازہ دم فوجی دستے سری نگر کے وسط میں تعینات کیے گئے ہیں۔ شہر میں مزید فوجیوں کی رہائش اور تعیناتی کے لیے کوئی خالی جگہ باقی نہیں رہی اس لیے ان فوجیوں کو کمیونٹی سینٹر میں گنجان آباد علاقے میں رکھا گیا ہے۔ مقامی آبادی اس صورت حال پر شدید احتجاج کر رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ غم اور خوشی کے موقع کے لیے گنجان آباد علاقے کے عوام کے لیے کمیونٹی سینٹرز ہی ایک اہم سہولت ہیں مگر یہ سہولت بھی بھارت کے ملٹری بلڈ اپ کے شوق نے چھین لی۔ عمر عبداللہ نے بھی اس صورت حال پر طنزیہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اپنے دور میں انہوں نے مقامی افراد کی خواہش پر کمیونٹی سینٹرز تعمیر کیے تھے جنہیں اب فوجی بیرکوں میں بدل دیا دیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے بھی اس صورت حال کو موضوع بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مسئلے کا حل ظالمانہ قوانین کے نفاذ میں ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ ایک طرف پانچ ہزار فوجیوں کا اضافہ تو دوسری طرف مزید فوجی چھاونیوں کے لیے ساڑھے پانچ سو کنال اراضی فوج کو الاٹ کر دی گئی ہے۔ فوجی تیاریوں کاجواز وادی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ہے جس میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ پونچھ کے علاقے میں بھارتی فوج کئی ماہ سے ایک آپریشن میں پھنسی ہوئی ہے۔ حریت پسند ایک جنگل میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بھارتی فوج کے نو افراد اس آپریشن میں مارے جا چکے ہیں اور تین زخمی ہوئے تھے۔ بھارتی فوج اس آپریشن میں ایک بھی حریت پسند کو مارنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو بیس سال سے جیل میں قید آزاد کشمیر راولاکوٹ کے ایک نوجوان کو اس مقام پر لے جا کر گولیوں سے بھون دیا اور یوں اپنی آتش انتقام کو سرد کیا۔ طاقت کی بے بسی سی بے بسی ہے۔ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور آرمی چیف نروانے بھی اس مقام پر آئے مگر معاملے پر بدستور پراسراریت کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ تھک ہار کر بھارتی فوج نے آپریشن کی کہانی ہی کو ادھورا چھوڑ دیا۔ بھارت نے کبوتر کی طرح ریت میں سر دینے کے انداز میں اس کا ایک حل ڈھونڈ رکھا ہے کہ فوجی قوت میں اضافہ۔ نئی ایجنسیوں کو معاملے میں دخیل کرنا اور نئے ظالمانہ قوانین متعارف لاگو کرنا۔ احتجاج اور فریاد کی ہر آواز کا جواب اسے دبانے میں تلاش کیا جاتا ہے۔