قومی حکومت وقت کی ضرورت

332

حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے قیام کے ساتھ ہی قومی ضرورتیں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ وزراء نے ملک اور قوم کی ضرورتوں کو جانے اور سمجھے بنا ہمیشہ وزیر اعظم کی خوشی اور خوشنودی کو مقدم جانا اور ملکی اور قومی معاملات پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کے لیے اپنا حصہ ڈالا اور یہ بھول بیٹھے کہ سیاسی درجہ حرارت بڑھانے سے ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک طرح طرح کہ مسائل میں گھر جاتا ہے لیکن سیاسی فکر سے نا آشنا وزیر اعظم اور ان کہ ساتھیوں نے اپوزیشن کے خلاف نہ ختم ہونے والے بیانات کا سلسلہ جاری رکھا ہے کبھی کسی حکومتی دانشمند نے یہ فکر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ حکمران تحمل مزاجی اور بردباری کے سہارے کامیاب ہوتے ہیں سیاسی میدان میں جذبات میں اٹھائے ہوئے قدم مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری سیاسی رہنما بڑے بڑے مسائل کو سمجھے بنا سیاسی محاذ پر مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے بیانات کی گولہ باری کا سہارا لیتے ہیں۔ جنہیں قومی معاملات کی جانب توجہ مرکوز رکھنا چاہیے تھی انہوں نے اپنی توپوں کے دہانوں کا رُخ اپوزیشن کی طرف رکھنے کو اولیت دی، اپوزیشن کا سیاست کے عملی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے ایک کمزور سیاسی کردار کی طرح اس کوشش میں رہے کہ کسی بھی طرح پوری اپوزیشن کی نہ صرف کردار کشی کی جائے بلکہ ان کو جیلوں میں ٹھونس دیا جائے۔
سیاست میں یہ انوکھا انداز متعارف کرایا گیا کہ اپوزیشن کے ہر رہنما پر کرپشن کے الزامات لگا کر نہ صرف لیڈروں کو برا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ سیاسی کردار ادا کرنے والے فعال کرداروں کو محدودکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس طرح وہ دماغ جنہیں عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کی فکر کرنا چاہیے تھی بس اس فکر میں لگے رہتے کہ انہیں اپوزیشن کو کھڈے لائن لگانے کے لیے فوری ردعمل دینا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اچھی خاصی حکومت بیانات کی حدتک محدود ہو کر رہ گئی جنہیں عوام کے درمیان ہونا چاہیے تھا وہ پریس کے ہو کر رہ گئے۔ منتخب عوامی نمائندوں کا کردار محدود ہونے کے سبب بیورو کریسی کو اپنا کھیل کھیلنے میں سہولت حاصل رہی اور عوامی مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی چلے گئے۔ بدامنی، بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے چلے گئے اس طرح حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی اور اداروں کی کاکردگی پر بھی منفی اثر پڑا، اداروں کا کوئی پرسان حال نہ ہونے کی وجہ سے عوام جہاں بھی جاتے ہیں سوائے پریشانی کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ عوام کا کسی کو کوئی خیال نہیں زندگی کے تمام شعبے بدسے بد تر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
حکومت عوام کو صاف ستھری سڑکیں، صاف پانی اور سستی اشیاء فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہے، دودھ اور چینی اور دیگر اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافے نے غریب کو زندہ درگور کردیا اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حکومت ہے کہ کہیں یہ کہتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی میں اضا فہ ہوا ہے کہیں کہتی ہے کہ غیر ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں آج بھی اشیاء کی قیمتیں کم ہیں اور جب مہنگائی اور بے روزگاری پر اپوزیشن شور مچاتی ہے تو حکومت کے وزیر با تدبیر مہنگائی کو صوبائی حکومت کی غیر ذمے داری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اس پر بھی موجودہ حکمرانوں کی خواہش ہے کے سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو جائے۔
موجودہ حکومت کو جتنا وقت میسر آیا اور جس طرح کی حمایت حاصل رہی ہے اس میں تو ملک میں ہر طرف امن و سکون کی ہوائیں چلنا چاہیے تھیں عوام کے مسائل حل ہونے چاہیے تھے، منافع خوروں اور ذخیرہ اندزوں سے ملک اور قوم کو نجات ملنا چاہیے تھی ہر ضرورت مند کو سرکاری طور پر سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر آنا چاہیے تھا لیکن عجیب افراتفری ہے اشیاء صرف کی قلت کے سبب اشیاء مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں عوام کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے عوام کے چہروں سے پریشانی کے آثار نمایاں ہیں ہاں خوش ہیں صرف وہ لوگ جو یا تو کار سرکار انجام دے کر اپنے مالی مسائل حل کر رہے ہیں یا زمینوں کا کاروبار کرنے والے جہاں دیکھو بھاری قیمتوں کے اخباری اشتہارات دکھائی دیتے ہیں سوچنے کی بات ہے کہ سرکار کی یہ زمینیں بیچ کون لوگ رہے ہیں اور کس کی مرضی سے یہ سارا کاروبار چل رہا ہے صورتحال یہ ہے کہ اب کسی غریب کے بس کی بات نہیں کے وہ اپنے لیے سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ بناسکے۔ آخر سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں کیا انہیں یہ لوٹ مار کے اشتہار دکھائی نہیں دیتے پھر بھی ہمارے حکمراں اس بات پر شاداں ہیں کہ ان کی کارکردگی کا معیار پچھلی حکومتوں سے کہیں بہتر ہے۔
عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کے عوامی فلاحی مراکز قائم کر کے اور احساس پروگرام جیسے امدادی نوعیت کے ہنگامی اقدامات سے ملک کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے انہوں نے یہ بات نہیں سمجھی کہ عوام مسائل کا مستقل حل چاہتے ہیں امدادی پروگراموں کا اجرا کرکے وقتی نوعیت کے مسائل تو حل کیے جا سکتے ہیں لیکن جب تک عوام کو مستقل روزگار فراہم نہیں کیا جائے امن عامہ کہ مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا مہنگائی اور بے روزگاری کا قلع قمع نہیں کیا جائے گا اقربا پروری کو سرے سے ختم نہیں کیا جائے گا اور عام لوگوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی ملکی مسائل میں کمی کے آثار نہیں دیکھے جا سکتے۔ اس کہ علاوہ سابقہ حکمرانوں کی خرابیوں کا ذکر بار بار کر کے انہیں ہیرو تو بنایا جا سکتا ہے لیکن عوام کے دلوں میں ان کی قدر کم نہیں کی جاسکتی۔ عوام خود بہترین منصف ہیں وہ بڑی گہری نگاہوں سے موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں ہر فرد پہلے سے زیادہ فکر مند ہے عام افراد کے چہرے متفکر دکھائی دیتے ہیں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فلاحی اداروں کہ مراکز پر کھانا کھانے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے لیکن صرف کھانا ہی انسان کا ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک انسان کے ساتھ بے پناہ مسائل جڑے ہوئے ہیں حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے معاشرے میں خود کشی کا رحجان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سفید پوش تو کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتے ہیں لیکن بچوں کا کیا کریں ان کی بھی ضرورتیں ہیں۔ عقل و خرد سے بیگانے حکمرانوں کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں کے عوامی مسائل اور معاملات کو پس پشت ڈالنے سے معاشرہ ان گنت مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔
شوق حکمرانی رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ عوامی بھلائی اور بہتری کے کام کرنے کے لیے عوام کے درمیان جانا پڑتا ہے عقلمند حکمران کبھی وزیروں اور مشیروں پر بھروسا نہیں کیا کرتے کیوں کہ یہ وزیر اور مشیر تو صرف اپنے مسائل اور معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں عوام کی کیا پروا یہ وزیر اور مشیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب عوامی مسائل حل ہونے لگیں گے تو وزیروں اور مشیروں کو کون پوچھے گا لہٰذا مسائل کو جوں کا توں رکھنا ہی ان کی ضرورت بھی ہوتا ہے اور ان کی اہمیت بڑھانے کا سبب بھی لیکن جب حکمراں براہ راست عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں تو عوامی مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں وزراء اور مشیروں کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک موقع پر خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے ارشاد کیا کہ اگر پانی نہ ملنے کے سبب ایک کتا بھی پیاس سے مرگیا تو مجھ سے اس کی باز پرس کی جائے گی۔ کیا ریاست مدینہ کی طرح ماڈل ریاست قائم کرنے کے دعوے دار حکمرانوں نے بھی کبھی یہ سوچا کہ اگر کوئی غریب وسائل کی عدم دستیابی کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو حکمران وقت کو بھی اللہ کی بارگاہ میں اس کا جواب دینا پڑ ے گا۔
موجودہ ملکی صورتحال تو اس بات کی متقاضی ہے کہ فوری طور پر ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کی حامل ہونے کہ ساتھ ساتھ زندگی کہ تمام شعبوں کو سادگی کی راہ پر ڈال کر قرضوں کہ بوجھ سے نجات دلانے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکے جب ہی ملک میں معاشی ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں اور معاشرہ پر اس کہ مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔