پارلیمانی ٹی 20۔ آل آئوٹ فار 33

423

تاریخی اجلاس تھا۔ تاریخی فیصلے ہوئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا شاید اتنی تعداد میں بل ایک ساتھ کبھی منظور نہیں ہوئے۔ شاید ہوئے ہوں گے۔ یہ ساری باتیں تین چار روز سے اخبارات، ٹی وی اور عوام میں گردش کررہی ہیں۔ لیکن ہماری رائے میں جو کچھ ہوا وہ سب مکمل کنٹرول کے ساتھ ہوا ہے۔ سوا تین سال سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد جب پی ٹی آئی حکومت کی حالت خراب تھی اتحادی آنکھیں دکھا رہے تھے پارٹی کے اندر بے چینی تھی اس کو اتنا بڑا کام دے دیا گیا۔ پی ٹی آئی والے خوش ہیں کہ ہم نے ایک مرتبہ پھر اکثریت ثابت کردی۔ لیکن ان میں سے کوئی انہونی نہیں ہے۔ کئی مرتبہ اسمبلیوں نے ٹی 20 بلکہ ٹی10 کی طرح تیز رفتاری سے اسکورنگ کی ہے۔ سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی اس کے ماہر ہیں۔ جو 33 بل منظور کیے گئے ہیں وہ کیا ہیں، اس کا کسی رکن قومی اسمبلی سے پوچھ لیا جائے تو اسے کچھ علم نہیں ہوگا۔ اسمبلی میں بلوں کی پیشی ان پر بحث اور اعتراضات ترامیم اور پھر منظوری پارلیمانی طریقہ ہے لیکن ہماری اسمبلیوں میں رفتہ رفتہ یہ روایت ہی ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب تو پارٹی لیڈر یا چیف وہب اشارہ کرتا ہے ہاتھ اٹھا دو، سب ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ وہ منع کرتا ہے تو سب منع کردیتے ہیں، بل منظور یا مسترد ہوجاتا ہے۔ کسی نے کچھ پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ جو 33 بل منظور کیے گئے ہیں ان کو پیش کرنے والے بھی غالباً بل کے مندرجات سے ناواقف ہوں گے۔ ان بلوں کے کیا اثرات ہوں گے یہ اس وقت پتا چلے گا جب ان کے
اثرات سامنے آنا شروع ہوں گے۔ پوری قوم کو الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے یا نہ کرنے کی ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگا کر 33 بلوں کے پیکیج میں بہت کچھ سمیٹ لیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح 18 ویں ترمیم کے پیکیج میں کئی چیزیں سمیٹ لی گئی تھیں۔ حالیہ 33 بلوں کی منظوری سے قبل 18 ویں ترمیم ہی کو دستور بننے کے بعد سے تاریخ کا سب سے بڑا پارلیمانی کارنامہ قرار دیا جارہا تھا۔ لیکن اس میں کیا کیا تھا جس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔ تعلیم صوبائی معاملہ بن گئی، صحت صوبائی معاملہ بن گئی۔ ایسا ہوتا بھی ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن یہ صوبائی معاملہ نہیں بنی بلکہ سندھ میں ایک پارٹی اور مخصوص علاقوں کو فائدہ پہنچانے کا معاملہ بن گئی ہیں۔ 18 ویں ترمیم اب سندھ کے شہری علاقوں کے اسپتالوں، یونیورسٹیوں، سرکاری تعلیمی اداروں، اسکول و کالج کے انتظامی اداروں میں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ اس ترمیم میں صدر مملکت سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لینے کے کارنامے کو بالکل اسی طرح اچھالا گیا تھا جس طرح آج الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا معاملہ اچھالا گیا ہے۔ حالاں کہ صدر سے اختیار لینے کے باوجود حکومتیں مدت سے قبل ختم کی جاتی رہی ہیں اس کے اور بھی طریقے ہیں۔
رواں اجلاس اور اس کے تاریخی کارنامے میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے معاملے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی ہدایت پر بھارتی جاسوس کے لیے قانون منظور کرایا گیا ہے۔ قانون میں کیا ترامیم ہوئی ہیں، اس ملک کے عوام اس سے لاعلم ہیں، اس لیے کہ ان کے نمائندہ ہونے کے دعویدار ارکان اسمبلی ہی نے اسے نہیں پڑھا ہے، مسئلہ یہی نہیں ہے کہ صرف کلبھوشن کا معاملہ ایسا ہے جس پر قانون سازی کرنا پڑی۔ پارلیمنٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل بھی منظور کیا ہے جس کے بارے میں مشیر خزانہ ایک دن قبل اعلان کرچکے تھے کہ اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دینے کی شرط آئی ایم ایف نے رکھی ہے۔ کیا ارکان اسمبلی نے اس بل کے فائدوں اور نقصانات پر غور کیا۔ اول تو پڑھا ہی نہیں ہوگا اگر پڑھ بھی لیا ہو تو سمجھا نہیں ہوگا اور سمجھ کر کریں گے کیا۔ جو لائن آگئی وہی کرنا ہے۔ تو پھر رکن قومی اسمبلی کا پڑھا لکھا ہونے کی جس شرط پر بہت زور دیا جاتا تھا وہ غیر موثر ہوگئی۔ اگر پڑھے لکھے ہو کر بھی بل نہیں پڑھتے اور پڑھے لکھے ہو کر بھی کوئی بحث اور غور نہیں کرتے تو پھر اس سے اچھے ان پڑھ ارکان اسمبلی تھے جو مذمت تو کرتے تھے۔ کوئی رکن بتا سکتا ہے کہ گوادر پورٹ اتھارٹی بل میں کیا ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اسی طرح فیملی لاز میں ترمیمی بل اور زنا بالجبر کے خلاف قانون میں کیا شامل کیا گیا اور کیا نکال دیا گیا اس کا اس وقت پتا چلے گا جب ان میں سے کوئی معاملہ پولیس اور عدالت کے پاس پہنچے گا۔ ہم الیکٹرونک ووٹنگ کو روتے رہے۔
یہ تو وہ پہلو تھا جو 33 بل ہوں یا صرف تین بل بہر صورت اسی طرح ہوتا کہ بغیر پڑھے منظور کرالیے جاتے، لیکن اس پارلیمانی ٹی 20 کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ عمران خان حکومت سے جو توقعات تھیں اور جو کام لینے تھے وہ تین برس میں تو نہیں ہوئے لیکن اس کے خلاف عوامی رائے عامہ تیزی سے خراب ہورہی ہے، اس کی روشنی میں فوری طور پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی سرخ بتی دکھا کر وہ سب کچھ منظور کرالیا گیا جس کی ضرورت تھی۔ یعنی اب پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں رہی۔ کسی بھی وقت چلتا کیا جاسکتا ہے۔ ضروری قوانین منظور ہوچکے، اسٹیٹ بینک کی آزادی میں اضافہ ہوگیا جس کے فوراً بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کے سربراہوں کو اسٹیٹ بینک طلب کرکے ڈالر کی اڑان کا سارا ملبہ ان پر ڈال دیا۔ بینکوں پر الزام ہے کہ وہ کرنسی کی سٹے بازی میں ملوث ہیں۔ اور ان بینکوں نے سٹے بازوں کو ڈالر خریدنے کے مشورے دیے ہیں۔ فی الحال تو بینکوں نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے لیکن کیا مستقبل میں بات صرف الزام یا تشویش تک رہے گی۔ یہ تاریخی بل کی منظوری کی کرامات کا ظہور ہے۔ اس اجلاس میں دس بڑے کمرشل بینکوں کے سربراہ یا ان کے اعلیٰ نمائندے شریک ہوئے تھے۔ گویا پاکستانی بینکوں کو پیغام مل گیا ہے کہ اب جو کرنا ہے صاحب کے اشارہ چشم کی بنیاد پر کرنا ہے۔ مالیاتی شعبہ مکمل غلامی میں چلا گیا ہے، اسے کہتے ہیں کہ پارلیمانی ٹی 20 آل فار 33۔