آئی ایم ایف سے معاہدے کی ’’خوش خبری‘‘

431

حکومت وقت سے پہلے ہی گر جائے یا اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے، ہر دو صورتوں میں اس کے بارے میں ناکامی کا تاثر پختہ ہوچکا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی مگر سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اسے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی، انتخابات میں کامیابی کے لیے ’’الیکٹیبلز‘‘ اور حکومت بنانے کے لیے اقتدار پرست سیاسی اتحادیوں کی مدد حاصل کرنی پڑی۔ ان تین برسوں میں تیسری بڑی مقبول سیاسی جماعت زیروزبر کردینے والے سیاسی زلزلوں کی زد میں ہے۔ عوامی غیر مقبولیت کی وجہ آئی ایم ایف سے کیے جانے والے معاہدات اور ان کی سخت شرائط ہیں جنہوں نے مہنگائی کا وہ طوفان برپا کردیا ہے جس نے مفلوک الحال لوگوں کو تو کیا خوش حال لوگوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کے قرضوں کے تحت عائد کیے جانے والے معاہدوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت کسی پالیسی سازی میں بھی آزاد نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر گھیرائو اقتصادی امور میں ہے۔ زرتلافی کا خاتمہ، اسٹیٹ بینک پر حکومتی کنٹرول ختم کرکے آئی ایم ایف کے نمائندوں کے ہاتھ میں دے کر پاکستانی کرنسی پر حکومتی کنٹرول ختم کردیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف کے براہ راست کنٹرول کی وجہ سے روپے کی ڈالر کے مقابلے میں ناقدری انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے، جس نے ہر شے کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے، ان ہی شرائط کے تحت ملک میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کی قیمت کے تعین کا اختیار بھی حکومت کے پاس نہیں رہ گیا ہے، پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کا حکم مسلسل جاری ہے، اس خطرناک صورت حال کے باوجود وزیراعظم عمران خان کے خطاب ’’موٹی ویشنل اسپیکر‘‘ کی طرح جاری ہیں۔ انہوں نے تازہ خطاب میں ’’حیرت انگیز‘‘ دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے دور میں غربت کم ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں ایک شاہراہ کی تعمیر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے مشکل حالات میں مشکل فیصلے کیے ہم نے ملک کو کورونا سے نکالا، اب مہنگائی سے نکالیں گے۔ آنے والے دنوں میں بہت بڑا پیکیج لارہے ہیں، آئندہ دنوں میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، مہنگائی کا سیلاب باہر سے آرہا ہے، پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آئی ہے، کورونا میں ملک کی معیشت کو بچانے والا پاکستان واحد ملک تھا، حکومت میں آئے تو تاریخی خسارہ ملا، موجودہ حکومت نے سب سے بڑا تجارتی قرضہ واپس کیا، یعنی وہ قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان کا مقابلہ وہ باقی ماندہ مدت میں کرلیں گے، جبکہ وہ ساتھ ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کی خبر بھی دے رہے ہیں۔ اصل سوال جس کا وہ جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے کس طرح نکالیں گے۔ وہ اپنی معاشی ٹیم مسلسل تبدیل کرتے جارہے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جس کے پاس عالمی سامراجی اداروں کے شکنجے سے آزاد کرانے کی حکمت عملی موجود ہو۔ ان کے موجودہ مشیر خزانہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کی معاشی ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔ شوکت ترین کے پیش رو ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی پیپلزپارٹی کی اقتصادی ٹیم کا حصہ تھے، آخر ان کو کیوں تبدیل کیا گیا۔ موجودہ مشیر خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کے تمام احکامات پورے کیے جارہے ہیں تاکہ نئی قسط مل سکے، گویا مذاکرات کی صورت صرف یہی ہے کہ وزارت خزانہ کے نمائندے آئی ایم ایف کے عہدیداروں کے دربار میں حاضر ہوکر اس بات کی رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے اتنے احکامات پورے کردیے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے قوم کو مطلع کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے آئندہ ڈیل سے قبل 5 شرائط پوری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی قوم کو یہ ’’خوش خبری‘‘ سنائی ہے کہ آئی ایم ایف سے ڈیل ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط قوم کے لیے کوئی انکشاف نہیں ہیں۔ جو شرائط بار بار بیان کی جارہی ہیں ان میں ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے نام پر روپے کی قیمت پر حکومت کا کنٹرول ختم کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ انھیں شرائط کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافہ کمر توڑ مہنگائی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ ہے کہ شرح سود میں اضافہ نہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کے ان مطالبات کے ساتھ آخر کیسے مہنگائی اور بے روزگاری کے اسباب میں کمی کی جاسکتی ہے۔ ان ہی وجوہ کے باعث صرف گیارہ مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں 39 روپے فی لیٹر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ حزب اختلاف نے حکومت پر دبائو بڑھا دیا ہے، لیکن کیا حکومت کی طرح حزب اختلاف کے پاس کوئی قابل عمل حل ہے۔ کیا حزب اختلاف کی جماعتیں آئی ایم ایف اور عالمی سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت کا کوئی ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ اس وقت قومی سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط قوم کو منظور نہیں ہیں۔