دائرہ علم و ادب کی دوسری اہل قلم کانفرنس

855

لو جی ہم چل دیے پھالیہ۔ پھالیہ پنجاب میں ایک تاریخی شہر ہے جہاں سکندراعظم کا چہیتا گھوڑا آسودۂ خاک ہے۔ اور اس کا مزار بھی موجود ہے۔ پھالیہ کا نام اسی گھوڑے کے نام پر ہے۔ اس سے زیادہ روشنائی ہم نہیں ڈال سکتے کہ اس گھوڑے کا عرس ہوتا ہے یا نہیں؟ اور اب تک اس کا مجاور بن کر کوئی ایم این اے بنا یا نہیں۔ وزیر کا چانس بھی ہوسکتا ہے آزمائش شرط ہے جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں وہ پہلی فرصت میں پھالیہ میں گھوڑے کے مزار پر پہنچیں۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ ہم اپنے عزیز دوست عطا محمد تبسم کے ساتھ کراچی سے لاہور جمعہ کی رات کو پہنچے۔ اسٹیشن سے ٹیکسی کے ذریعے رات قیام کے لیے الخدمت فاونڈیشن کمپلیکس کی عظیم الشان عمارت میں پہنچے اور کسی 5 اسٹار ہوٹل کا لطف اٹھایا۔ قیام و طعام کا بندوبست لاہور کے رابطہ کار بھائی ملک رب نواز نے کیا۔ جناب عبدالشکور صدر الخدمت فاونڈیشن اور ان کی ٹیم نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہفتہ کی صبح گیارہ بجے پھالیہ کے لیے روانہ ہوئے۔ بس میں لاہور اور کراچی کے شرکاء کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی۔ ہم چار گھنٹے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد خیر سے پھالیہ پہنچے۔ ضیغم مغیرہ جو غزالی اسکولز و کالجز کے کرتا دھرتا ہیں۔ چہرہ پر بہت ہی پر کشش مسکراہٹ کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال کررہے تھے۔ سب سے پہلے رجسٹریشن ہوئی۔ کانفرنس کا بیج لگایا گیا۔ ایک عدد بستہ جس میں قلم کاغذ اور کانفرنس کے پروگرام کی تفصیل تھی ہمارے حوالے کیا گیا۔ پھر ہم اپنا سامان وسیع وعریض قیام گاہ میں رکھ کر کھانے کے لیے طعام گاہ پہنچے جہاں بہت ہی پر تکلف دعوت ہماری منتظر تھی۔ ہم نے بھی طعام کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ بعد ازاں چائے کا دور چلا۔ اس مصروفیت سے نکل کر ہم پنڈال میں پہنچے جہاں ہر طرح کے ملٹی میڈیا۔ فوٹو گرافرز اور فیس بک پر لائف کوریج کے انتظامات موجود تھے یہاں تک کہ ڈرون کیمرے بھی محوِ پرواز تھے۔ اس دوران ہماری اتنی تصاویر کھینچی گئیں جیسے ہم بارات کے دولھا ہیں۔ اتنی تصاویر تو خود ہماری شادی میں بھی نہ لی گئی ہوں گی جتنی یہاں بنائی گئیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔ جس کے بعد دائرہ کے سرپرست ضیغم مغیرہ نے استقبالیہ خطاب فرمایا۔ پھر صدر دائرہ احمد حاطب صدیقی نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر کما حقہ ُ روشنی ڈالی۔ یوں کانفرنس کا باضابطہ آغاز ہوا۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ ڈھائی سو لوگوں نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور دوسو سے زائد خواتین و حضرات مع بچوں کے شریک ہوئے۔ کانفرنس میں نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کی بھی ایک اچھی خاصی قابل ذکر تعداد شریک تھی۔ پہلی ہی نشست میں محترم خلیل الرحمن چشتی نے ’’تعمیری ادب کے تشکیلی عناصر‘‘ پر معلومات سے بھر پور اور بہت ہی پر مغز خطاب فرمایا۔ دوسری نشست میں ’’تعمیری ادب کا فروغ کیسے ہو؟‘‘ کے موضوع پر ایک بہت ہی دلچسپ مذاکرہ ہوا۔ جس میں ڈاکٹر فخر الاسلام پشاور۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر راولاکوٹ۔ شیخ فرید کوئٹہ۔ ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم فیصل آباد اور محمد افضل رائید کراچی نے حصہ لیا اور اپنے اعلیٰ خیالات سے شرکاء کو مستفید کیا۔ نظامت کے فرائض عطا محمد تبسم نے نہایت خوبصورتی سے انجام دیے۔ اس کے بعد علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ کی بصری پیشکش محترم عبید اللہ کیہر نے شرکاء کو دکھائی۔ جس میں پاکستان کی ٹیناثانی نے اردو اور مصر کی ام کلثوم نے عربی میں ترجمہ سناکر حاضرین کو مسحور کردیا۔ بعد نماز عشاء ایک بہت ہی پرتکلف عشائیہ ہوا۔ اور پھر ایک بہت ہی شاندار اور جاندار کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں اسی کے قریب شعراء نے اس شرط کے ساتھ کلام سنایا کہ صرف تین شعر پڑھنے کی اجازت ہے ورنہ یہ محفل صبح تک چلی جائے گی جبکہ دوسرے دن بھی کانفرنس ہونا تھی۔ مگر وہ شاعر ہی کیا جو تین اشعار کی پابندی کرے لہٰذا اکثر شعراء نے تین سے زائد اشعار سنائے۔ خواتین شعراء نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پچاس شعراء تو وہ نوجوان تھے جن کا تعلق پھالیہ اور اس کے قرب و جوار سے تھا۔ آخر میں جب رات بھیگ چلی تھی صدر مشاعرہ جناب عباس تابش نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ مشاعرہ رات ایک بجے اختتام پزیر ہوا۔ خیر نیند سے مخمور آنکھوں اور تھکن سے چور بدن کے ساتھ شرکاء نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
ضیغم مغیرہ نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ دوسرے دن ناشتہ میں چھتیس ڈشیں ہوں گی۔ ہم گن تو نہ سکے مگر اتنی ڈشیں ضرور تھیں کہ اگر ہر ایک سے ایک نوالہ بھی لیا جائے تو طبیعت سیر ہوجائے۔ ناشتے کے بعد ہم دوبارہ بسوں میں سوار ہوکر بسم اللہ شادی ہال پہنچے جہاں ایک بہت بڑے ائرکنڈیشنڈ ہال میں بہت ہی خوبصورت اور سحر آفریں ماحول میں ہمیں لایاگیا۔ یہاں بھی میڈیا۔ ملٹی میڈیا فوٹو گرافی اور ڈرون کیمروں کا بھرپور استعمال دیکھنے میں آیا۔ پوری کانفرنس کی لائف کوریج فیس بک پر جاری تھی۔
دوسرے دن کی پہلی نشست اور کانفرنس کی چوتھی نشست میں سب سے پہلے کرنل اشفاق حسین کی صدارت میں ایک نثری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں سب سے پہلے اس خاکسار یعنی ظفر عالم طلعت بقلم خود کو دعوت دی گئی کہ بزبان خود اپنی گدگداتی تحریر پیش کروں۔ ہم نے بھی ایک مضمون بعنوان ’’پرس‘‘ پیش کیا تاکہ پرس کی وجہ سے خواتین بھی لطف اندوز ہوں اور مرد حضرات خواتین کو دیکھ کر دل سے پرس کو پزیرائی بخشیں۔ ہمارے بعد عامر بشیر صاحب (جو کہ صاحب کتاب بھی ہیں) نے اپنا مضمون ’’لوٹا‘‘ پیش کیا جس کو سن کر سب ہی لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اور خوب داد دی۔ آخر میں صاحب صدر جناب کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کیے جس سے ہم سب بہت محظوظ ہوئے اور دل کھول کر داد دی۔
چوتھی نشست بعنوان ’’ادب اطفال۔ عصری تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ جس میں محترم اشفاق احمد خان اور ڈاکٹر محمد افضل حمید نے اپنے تحقیقی مقالے پڑھے اور بچوں کے ادب اور اس کی موجودہ ضروریات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ جس میں صدر محفل ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ بعد ازاں پانچویں نشست ’’ادب کی گمشدہ کہکشان‘‘ منعقد ہوئی۔ جس میں ڈاکٹر ساجد خاکوانی اور جناب ضیغم مغیرہ نے تفصیلی اظہار خیال کیا اور صاحب صدر جناب خلیل الرحمٰن چشتی نے موضوع کو بہت خوبصورتی سے سمیٹا۔اس کے بعد ظہرانہ ہوا۔ ظہرانے کے بعد اختتامی نشست منعقد ہوئی جس میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نمائندوں کو موقع دیا گیا کہ وہ کانفرنس اور اس کے مقاصد اور انتظامات کے حوالے سے اظہار خیال کریں۔ تاثرات اور تجاویز سے مستفید کریں۔ تاکہ آئندہ کانفرنس کو مزید بہتر بنایا جائے۔ اس موقع پر اس خاکسار ظفرعالم طلعت نے بھی سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے اظہار خیال کیا۔
اختتامی نشست کی صدارت ڈاکٹر انیس احمد صاحب کو کرنی تھی مگر ایوان وزیراعظم سے ان کا بلاوا آگیا جس کی وجہ سے وہ شرکت نہ کرسکے۔ لہٰذا اعجاز شفیع گیلانی صاحب ہی کو صدر مجلس بنادیا گیا۔ اس محفل میں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی (چیئر مین گیلپ پاکستان) نے کلیدی خطاب بعنوان ’’پاکستانی معاشرے کے مسائل اور اہل قلم کا کردار‘‘ کیا۔ قبل ازیں مہمان خصوصی عبدالشکور صاحب (صدر الخدمت فاونڈیشن پاکستان) نے خطاب کیا۔ جس کے بعد ضیغم مغیرہ صاحب نے حاظرین کا شکریہ ادا کیا اور دعا پر اس کانفرنس کا اختتام کیا۔