اب حکومت نہیں مہنگائی ختم کریں

430

اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، گلی محلوں میں، سیاسی گرما گرمی میں اضافہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں لگام ہے انہوں نے مکمل کنٹرول کے ساتھ ہر پہلو سے یہ بات یقینی بنائی ہے کہ ہر اخبار ہر ٹی وی چینل اس انداز کی خبریں شائع اور نشر کرے کہ لوگ اسے حقیقت سمجھنے لگیں۔ تازہ مہم کے مطابق ہرجگہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ سیاسی ٹمپریچر (درجہ حرارت) بڑھنے لگا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے جلسے ہو رہے ہیں ان میں اپوزیشن حکمرانوں کو بحیرۂ عرب میں غرق کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ دوسری طرف سے کہا گیا کہ دھرنا دیا تو یہ خوار ہوں گے۔حالانکہ خوار تو صرف پاکستانی عوام ہو رہے ہیں۔ اگر کسی سے مماثلت کی بات کی جائے تو پورا انداز وہی ہے کہ ایک طرف سے نعرہ مارا جائے دوسری طرف سے جواب دیا جائے۔ ایک سے بڑھ کر ایک جواب آئے گا۔ یعنی ایک نے جگت ماری جوابی جگت حاضر اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی تینوں بڑی پارٹیاں اس معاملے میں خود کفیل ہیں۔ فی الحال حکومت میں دو دو تین تین جگت باز بیک وقت موجود ہیں۔ کیا اپوزیشن والے اپنے دعوے کے مطابق حکومت کو بحیرۂ عرب میں غرق کر دیں گے۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ اب پی ڈی ایم والے یہ کر جائیں گے۔ پی ڈی ایم نے دھرنے کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کی ہے انہوں نے حکمرانوںکو قومی رسوائی کا سبب اور ان کا اقتدار میں رہنا خطرہ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ سیاستدانوں نے حکومت کے خاتمے کے لیے کردار ادا نہ کیا تو قوم معاف نہیں کرے گی۔ قوم کی رسوائی کا سبب بننے والی حکومت کو اقتدار میں رہنے کا حق نہیں۔ سب سے زیادہ قابل غور بات مولانا کی جانب سے کہی گئی ہے کہ ادارے حقائق کو سمجھیں۔ گویا وہ اداروں کو مداخلت پر اکسا رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ جلسے جلوس گرما گرمی اخبارات کی خبریں۔ پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ حکومت کے اتحادیوں میں اہم ترین ق لیگ کا اظہار ناراضی یہ سب ایک کھیل کا حصہ لگتا ہے۔ اس سے کئی کام لیے جائیں گے۔ پہلا تو یہ کہ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال ابھرے گا کہ کچھ تبدیلی ہونے والی ہے، لوگ تبدیلی سے امیدیں باندھنے لگیں گے اور تبدیلی کے انتطار میں قوم 74 برس گزار چکی مزید انتظار کرلیں۔ انتظار کرنے سے تبدیلی نہیں آتی۔ اللہ نے قرآن میں بہت واضح طور پر بتا دیا کہ اس نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے اپنی حالت بدلنے کا خود خیال نہ ہو۔ اس کو علامہ اقبال نے اپنے شعر کے ذریعے واضح کیا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
تو ٹی وی، اخبارات اور ان کو چلانے والے خبروں، تجزیوں کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دیتے رہیں کہ کچھ بدل جائے گا۔ لیکن کچھ نہیں بدلے گا۔ اگر اپوزیشن حقیقتاً حکومت کو بحیرۂ عرب میں غرق کر دے تو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ صرف موجودہ حکومت تو قوم کی رسوائی کا سبب نہیں ہے پھر اسے ہی کیوں غرق کیا جائے۔ دراصل قوم کی رسوائی کا سبب تو یہ تین بڑی جماعتیں ہیں جو باری باری حکومت میں آتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کئی کئی مرتبہ اقتدار میں آچکی ہیں۔ انہوں نے کیا تبدیلی پیدا کی۔ ساری خرابیاں اور ملک کی رسوائی کا سبب تو یہی جماعتیں ہیں اور ان جماعتوں کے بدنام ترین لوگ ان کو چھوڑ کر اب پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل ہیں۔ دراصل یہ سب لوگ ملک کی رسوائی کا سبب ہیں تو پھر ان سب کو غرق ہونا چاہیے اور یہ کام عوام کو کرنا ہے۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن میں اصولاً تو ڈیڑھ سال ہے پھر ابھی سے شور شرابا کیسا؟ یہ بات سراج الحق صاحب نے دو دن قبل بتا دی تھی کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی تین سال سے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کی ان پالیسیوں کی سبب مہنگائی عروج پر پہنچ گئی ہے جو مسلم لیگ اور پی پی پی کی حکومتیں بھی ہوتیں تو جاری رکھتیں۔ بلکہ انہوں نے بھی یہی سارے کام کیے تھے۔ پی ڈی ایم کو کم ازکم یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کہ صرف موجودہ حکومت کو ہٹایا جائے بلکہ ایسا کرنے والے تمام لوگوں کو سیاست سے بے دخل ہونا چاہیے۔ اب جو گرما گرمی دکھائی جا رہی ہے یا سیاسی محاذ گرم کیا جا رہا ہے اس سے لوگ حکومت کی تبدیلی کے چکر میں پڑجائیں گے۔ نئی امیدیں باندھ لیں گے اور ایجنڈا چلانے والے اپنی مرضی کا ایجنڈا مکمل کر لیں گے۔ پی ڈی ایم اور پی پی پی بہت سے معاملات میں ’’قومی مفاد میں‘‘ تعاون کرتے ہیں تو پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک اور تعاون کریں۔ تینوں مل کر فی الوقت حکومت کو ہٹانے کے بجائے مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کریں۔ ملک کی آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں۔ عالمی بینک اور اس کے ایجنٹوں کو نکالیں، حکومت سے زیادہ خطرناک تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کارندے ہیں۔ اپوزیشن متحد ہو کر مہنگائی کے خاتمے اور ان عالمی ساہوکاروں سے نجات کی جدوجہد کرے تو کسی دھرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ ہی میں کامیابی مل جائے گی۔ موجودہ حکومت کو اکثریت حاصل نہیں۔ یہ ق لیگ والے کہتے ہیں کہ ہم تعلق نبھا رہے ہیں حکومت ساتھ نہیں دے رہی۔ سوال یہ ہے کہ ق لیگ والے حکومت سے کیوں تعلق نبھا رہے ہیں جن لوگوں سے ووٹ لیے ہیں جن کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں ان سے تعلق نبھائیں۔ اور سارے معاملے کی زمام اپنے ہاتھ میں رکھنے والے المعروف اسٹیبشلمنٹ بھی عوام کا امتحان ختم کرے اور ان کو مہنگائی اور عوام کو لوٹنے والے نظام سے نجات دلائے۔