مسلمانوں کا فکری انتشار اور مفاد پرستی ہی مغربی تہذیب کیخلاف مزاحمت میں رکاوٹ ہے

623

کراچی(رپورٹ \محمد علی فاروق ) مسلمان اسلام اور قرآن کے اصولوں سے دورہوگئے ہیں‘ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مغربی تہذیب کو اپنے ذہنوں پر حاوی کرلیا ہے‘ اسلامی ممالک فکری، تہذیبی، تعلیمی، سیاسی اور ذہنی حیثیت سے مغرب کے ہی غلام ہیں‘ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران مغربی تہذیب کے پر وردہ، دلدادہ، مغلوب اور اس کے پروموٹرز اور آلہ کا ر ہیں‘ پس پردہ مغر ب نے اپنے فکر و فلسفے کو پھیلا کر مسلم دنیا میں انتشار و خلفشارکے ذریعے انہیں آپس میں دست و گریبا ں کیا ہوا ہے‘ امت مسلمہ مختلف فرقوںاور ازم میں تقسیم ہے‘ اس کے باوجود مسلم امہ میں مغربی تہذیب کی مزاحمت کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر عبدالرشید ترابی، چیئر مین اتحاد بین المسلمین کونسل پاکستان اور چیئرمین سیاسی امور غربا الحدیث ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی اور مجلس وحدت المسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اثرات کی مزاحمت کیوں نہیں ہو رہی؟‘‘ عبدالرشید ترابی نے کہا کہ بدقسمتی سے حکمرانوں کے محاذ پر بیشتر مسلم ممالک مغربی تہذیب کے پر وردہ، دلدادہ، مغلوب اور اس کے پروموٹرز اور آلہ کا ر بن چکے ہیں‘ ریا ستی ادارے بھی ان ہی کے ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں‘ مغربی تہذیب کی حکومتیں، ذرائع ابلاغ، تھنک ٹینکس، معاشی و سماجی اداروں سمیت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں‘ مغرب اپنا ایجنڈا اور اپنی تہذیب پوری دنیا میں نافذ کرنا چاہتا ہے‘ اس حوالے سے مغربی دانشور فرانسس فوکو یامہ کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے راستے میں اگر کوئی تہذیب چیلنج بن سکتی ہے تو وہ صرف واحد اسلامی تہذیب ہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ موجود ہے اور ان کا ایک قابل فخر ماضی بھی رہا ہے‘ مسلم دنیا اتحاد کرلیتی ہے تو مغرب کے لیے ایک بہت بڑی بغاوت کی دیوار کھڑی ہوسکتی ہے ‘ فرانسس فوکویامہ کی اگلی کتاب دی اینڈہسٹری اینڈ لاسٹ مین میں انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسانی تہذیب نقط عروج کو حاصل کر چکی ہے‘ زمانہ کار اس وقت مغربی تہذیب کے ہاتھ میں ہے اور علمبردار حکومتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ اپنے اس مقام اور رتبے کو قائم و برقرار رکھیں ۔ عبدالرشید ترابی نے کہا کہ مسلم امہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ان کی وابستگی اپنی تہذیب کے ساتھ ہے انہیں صرف اپنی قیادت سے گلہ ہے وہ ان کی صحیح پشت بانی نہیں کر رہے‘ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دینی ادارے، اسلامی تحریکیں مشکلا ت کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر مغربی تہذیب کی مزاحمت کر رہے ہیں‘ اس وقت بھی مغربی ممالک میں مسجدیں بنائی جا رہی ہیں‘ دینی مدارس کام کر رہے ہیں‘ اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں پڑھے لکھے افراد خاص طور پر خواتین کی بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں تاہم اب بھی بہت سی غیر مسلم ریاستوں میں مسلم خواتین اسکاف اورنقاب پہن کر تعلیمی اداروں میںنہیںجاسکتیں ،امریکا میں ایک مسلم رکن اسمبلی کی رکنیت اس وجہ سے ختم کر دی گئی تھی کہ وہ حجاب پہن کر اسمبلی تک پہنچ گئی تھیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت ہم آہنگ ہوجائے اور پوری مسلم دنیا میں ایک حقیقی جمہوری عمل کے نتیجے میں ایسی قیادت سامنے لائی جائے جوکہ مسلم امہ کی ترجمانی کر ے تاکہ حقیقی جمہوری عمل کو بحال کیا جائے۔ ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی نے کہا کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مغربی تہذیب کو اپنے ذہنوں پر حاوی کرلیا ہے اس لیے مسلم ممالک مغربی تہذیب کے افکار و فکری یلغار کا مقابلہ نہیں کر پا رہے‘پس پردہ مغرب اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے مسلم عوام میں اپنے فکر و فلسفے کو پھیلا کر مسلمانوںکو ان کی تہذیب وتمدن سے دور کر رہا ہے جبکہ مسلم دنیا میں انتشار وخلفشار پیدا کرکے انہیں آپس میں دست و گریبا ں کیا ہوا ہے‘ مغربی تہذیب کی یلغار میں سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کا بہت اہم کر دار ہے ‘ یہ دونوں ادارے ہی کمرشلائزڈ ہیں‘ دجالی فتنے کے ذریعے مسلم ممالک اور ان کے عوام کو الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا دلدادہ بنا کر تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بیرونی فنڈنگ سے فحش اشتہارات اور ڈرامے بنا کر مغرب کا ایجنڈا نافذ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کی نئی نسل مغربی تہذیب کی طرف تیزی سے راغب ہو رہی ہے۔ عامر عبداللہ محمدی نے کہا کہ مغرب مسلم دنیا میں فرقہ واریت کا بیج بو کر اس کی آبیاری کر رہا ہے‘ حالیہ دور میں امت مسلمہ مختلف فرقوںاور ازم میں تقسیم ہے جبکہ کچھ ممالک تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ملک کو سیکو لر اسٹیٹ کہلوانے میں فخر محسوس کر تے ہیں‘ مسلمانوںکے درمیان فکری انتشار اور مفاد پرستی ہی مغربی تہذیب کے خلاف مزاحمت میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے جبکہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب مسلم حکمران حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو ان کے دعوے اور وعدے الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان کی سوچ کے پہلو ہی بدل جاتے ہیں‘ مغرب کی جانب سے مسلم حکمرانوں کو قرضے دیے جاتے ہیں جو عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتے ہیں‘عوام کساد بازاری اور مہنگائی کے بوجھ سے نکلنے کے لیے غلط راستوںکا انتخاب کرتے ہیں‘ گھریلو خواتین بھی پیٹ پالنے کے لیے نکلتی ہیں جس سے مسلم معاشرے میں بگاڑ پید ا ہوتا ہے۔ علامہ باقر عباس زیدی نے کہا کہ مسلمان اسلام اور قرآن کے اصولوں سے دور ہوگئے ہیں‘ قرآن کریم پر نگا ہ ڈالی جائے تو وہاں یہ حکم ملتا ہے کہ اے ایمان والوں یہودیوں اور عیسائیوںکو اپنا ولی یعنی سر پرست نہ بنائو‘ اسلامی ممالک فکری، تہذیبی، تعلیمی، سیاسی اور ذہنی حیثیت سے مغرب کے ہی غلام ہیں کیونکہ انہوں نے درحقیقت یہود و نصاریٰ کو اپنا روحانی سرپرست تسلیم کر لیا ہے‘ یہود و نصاریٰ بھی اس کام میں کافی حد تک مسلمانوں میں نفوذ کر چکے ہیں‘ مسلم ممالک میں بہت سے لوگ اسلام کے نام سے دھوکا بھی دے رہے ہیں اور ظاہری طور پر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن اندر سے وہ یہود و نصاریٰ کے ہی ایجنٹ ہیں بحرحال ان کے علاوہ جو لوگ حقیقی طور پر اسلام کے داعی اور حامی ہیں وہ اسلامی ثقافت کے لیے کوشاں ہیں وہ کافی حد تک مغربی تہذیب کے اثرات سے محفوظ بھی ہیں‘ عالم اسلام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایسے حوصلہ مند قائد کا فقدان ہے جو مغربی تہذیب کاجرأت، اعتماد اور یقین کے ساتھ سامنا کرے اور اس تہذیب جدید کے مختلف مکاتب فکر اور راستوں کے درمیان ایک نیا راستہ پیدا کرے‘ مغرب خودکو انسانی حقوق کے اعتبار سے اول درجے پر سمجھتا ہے جبکہ دنیا میں جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اس کے پیچھے امریکا ، اسرائیل اور یورپ ہی ہیں‘ کینیڈا میں اسکول کے بچوں کی لاشوںکا برآمد ہونا‘ یورپ کے متمدن ہونے کی قلعی کو کھو ل رہا ہے‘ یورپ کا یہ ڈھونگ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور حقیقی انسانیت کے داعی مسلمان رسول کریمؐکے ماننے والے سامنے آرہے ہیں‘ یورپ کے مقابلے میں مسلم ثقافت اور سائنسی ترقی دو بارہ عروج کی طر ف جا رہی ہے‘ یو رپ کی تہذیب شکست کھا رہی ہے‘ الحمد اللہ بیشتر اسلامی ممالک دو بارہ اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف لوٹ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مسلمان اپنی حقیقت کو پہچان رہے ہیں۔