حکومت نہیں نظام کو رخصت کریں

483

پاکستان میں سیاسی لانگ مارچ کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ لیکن یہ ساری تاریخ سیاسی حکومتوں کو نکالنے اور ان کی جگہ دوسری سیاسی حکومت یا فوجی حکومت لانے کے گرد گھومتی ہے۔ اس لانگ مارچ کا نقصان کبھی سیاسی لیڈروں یا حکومت میں شامل افراد کو نہیں ہوتا وہ ایک پارٹی سے دوسری میں ہوتے ہوئے پھر حکمران پارٹی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے دسمبر میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے پی ڈی ایم کے اجلاس میں اتحاد میں پیپلز پارٹی کو واپس لانے اور اس سے مشاورت پر غور ہوا۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ لانگ مارچ مہنگائی کے خلاف کیا جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے میاں شہباز شریف نے فون کرکے مشاورت کی۔ انہوں نے محمود خان اچکزئی سے بھی مشاورت کی۔ بلاول زرداری نے کہا ہے کہ مہنگائی سے نجات کے لیے عمران سے چھٹکارا ضروری ہے۔ غرض ہر چہار جانب سے حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے ہٹانے پر اتفاق پایا جاتا ہے اور مہنگائی کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت پوری قوم مہنگائی سے اس قدر تنگ ہے کہ کہیں سے بھی حکومت کے خاتمے کی آواز لگے گی لوگ پیچھے چل پڑیں گے۔ اور یہیں پر غلطی کریں گے، اگر دیکھا جائے تو ایوب خان کی حکومت کے خلاف چینی کی قیمت میں چار آنے اضافہ ہوا تھا تو اس حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوگئی، اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا لیکن چینی سمیت کسی چیز کی قیمت میں چار آنے کی بھی کمی نہیں ہوئی۔ پھر بھٹو صاحب کی سیاسی حکومت تقریباً 13 سالہ فوجی اقتدار کے بعد قائم ہوئی، اس کی قیمت بھی آدھا پاکستان تھی، بھٹو صاحب نے کہا پاکستان بنایا لوگوں کو خوش کیا کہ اب نیا پاکستان بنادیا ہے لیکن نیا پاکستان پرانے سے بھی زیادہ خراب کردیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات اتنے خراب کردیے گئے کہ 1971ء میں ہتھیار ڈالنے والی فوج بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ہیرو بنی اور پھر 11 برس کے لیے ملک میں فوجی راج آگیا۔ بھٹو حکومت کی کوئی خرابی دور نہیں ہوئی۔ مہنگائی، بدعنوانی، ملک دشمنی اقربا پروری کے الزامات لگے پھر بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی، 11 برس کی فوجی حکومت کے دوران ملک میں مہنگائی بڑھی، لسانی تنظیمیں سرکاری سرپرستی میں بنائی گئیں، قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کیا گیا اور عوام کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا، نتیجہ کیا نکلا… مہنگائی، بدعنوانی، اقربا پروری کوئی چیز کم نہیں ہوئی۔ 1963ء میں پٹرول 70 پیسے فی لٹر تھا، لیکن جب مہنگائی کے خلاف ایوب خان کی حکومت ختم کی گئی تو کسی چیز کی قیمت واپس نہیں آئی۔ بھٹو صاحب کی حکومت گئی تو کسی چیز کی قیمت واپس نہیں ہوئی، اور جنرل ضیا الحق آگئے اور جب 11 برس بعد وہ گئے تو قیمتیں بہت آگے جاچکی تھیں پھر سیاسی حکومتوں کے دو، دو سال کے ادوار چلے اور بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کو ایک ایک مرتبہ عدالت سے اور ایک مرتبہ پیپلز پارٹی حکومت کو عوامی احتجاج کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ نواز شریف حکومت کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے کارروائی کی۔ کسی حکومت کے جانے کے بعد قیمت کسی شے کی کم نہیں ہوئی۔ مشرف گئے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ بتایا گیا کہ ساری غلطی سابق حکمران کی تھی۔ پھر پیپلز پارٹی کو اقتدار دیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف آگئے اور پھر مہنگائی بدعنوانی اقربا پروری عوامی مسائل کے خلاف آواز اٹھا کر عمران خان آگئے، وہی بھٹو والے روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ تھے۔ لیکن بھٹو کے نئے پاکستان کی طرح عمران خان کا نیا پاکستان بھی نہیں بنا۔ بیروزگاری بڑھ گئی، بے گھر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ مہنگائی بڑھنے کی کوئی شرح نہیں، کوئی فرد اپنا ایک ماہ کا بجٹ بھی نہیں بناسکتا، اب سب یومیہ بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ آج کا گزارہ کیسے ہوگا، اب پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جو نعرے لے کر اٹھی ہیں ان تمام خرابیوں کی ذمے دار یہ جماعتیں بھی ہیں۔ اس میں پی ٹی آئی کا حصہ صرف 3 سال کا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے 3 سال میں 15 سے 70 برس کے ریکارڈ توڑ ڈالے، لیکن خرابی کے ذمے دار مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی یہ سب ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام پارٹیوں کے لوگ آج کل پی ٹی آئی میں ہیں اور سب سابقہ حکمرانوں کو مطعون کررہے ہیں۔ یہ لطیفہ نہیں ہے بلکہ قوم کے ساتھ دھوکا ہے۔ اور قوم ہے کہ ٹی وی دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے کہ حکمران اچھے ہیں یا چور ہیں اپنی جیب کٹنے کا انہیں ہوش نہیں ہوتا۔ اگر پاکستان میں کوئی لانگ مارچ کرتا ہے تو حکومت کے خلاف نہیں نظام کے خلاف کیا جائے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر نکالنے کی جدوجہد کررہے ہیں وہ یا ان کا کوئی اتحاد اقتدار میں آنے کے بعد وہی کام نہیں کرے گا جو آج کل ہورہے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ مہنگائی بالکل ختم نہیں ہوگی لیکن روزگار، مکان، ترقیاتی کام، بجلی گیس پانی کی فراہمی اور دیگر کام تو کیے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا مہنگائی اور حکومت کے خلاف احتجاج کا رُخ بدل کر نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے اور جوں ہی یہ آواز اٹھے گی یہ روایتی پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، اے این پی وغیرہ اپنے راستے ایسی بات کرنے والوں سے الگ کرلیں گے۔ لہٰذا یہ بات کرنا ضروری ہے تا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی بھی ہوجائے۔