تحریک لبیک کے مذاکرات کی کچھ نئی جہتیں

528

تحریک لبیک نے جب اپنی تحریک کا آغاز کیا تو اس وقت وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر تھے ادھر قوم T-20ورلڈ کپ کے 24اکتوبر کو ہونے والے پاک بھارت میچ کی منتظر تھی بلکہ پاکستان کے جیت کی منتظر بھی۔ تحریک لبیک نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا تو وزیر اعظم نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو فوراً واپس بھیجا کہ وہ تحریک لبیک والوںکے ساتھ مذاکرات کر کے ان کا دھرنا اور لانگ مارچ ختم کروائیں جبکہ وزیر داخلہ کا بھی دبئی میں میچ دیکھنے کا پروگرام تھا، شیخ رشید آگئے ٹی ایل پی سے مذاکرات ہوئے، حکومت کی طرف سے قوم کو یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ ہماری بات چیت کامیاب ہو گئی لیکن دوسری طرف سے یہی بات آتی رہی کہ ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کی طرف مارچ جاری رہا۔ اس پورے معاملے پر اتنی حساسیت غالب رہی کہ کہیں سے کسی کی بات عوام کے سمجھ میں نہیں آرہی تھی اسی لیے قوم نے بھارت سے جیت کی خوشی کے بعد اپنی ساری توجہ پاکستان کے دیگر میچوں کی طرف مرکوز کرلی کہ وہاں کم از کم یہ تو سمجھ میں آرہا تھا کہ کتنے رنز بن رہے ہیں۔ کتنے آئوٹ ہو رہے ہیں کون سی ٹیم جیت رہی ہے اور کون سی ہار رہی ہے۔
حکومت کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ یا کسی تنظیم سے جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے مظاہرے اور ہڑتالیں وغیرہ تک کرتے ہیں جب مذاکرات کرتی ہے تو اس میں ابہام کے اتنے دبیز پردے پڑے ہوتے ہیں کہ عوام کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی فریقین کی طرف سے جو دعوے کیے جاتے ہیں وہ ایک دوسرے سے متضاد بلکہ بعض اوقات متصادم ہوتے ہیں اور ان دونوں طرف کے دعوں میں کوئی شفافیت clarity نظر نہیں آتی اسی لیے پھر ایسی کسی قوت کو درمیان میں آنا پڑتا ہے جن پر فریقین کو اعتماد ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1977 میں جب پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو بھٹو صاحب کی طرف سے پی این اے کے رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تو قومی اتحاد کے رہنمائوں میں یہ گفتگو ہونے لگی کہ حکومت مذاکرات کے لیے مخلص نہیں بلکہ یہ مذاکرات کی بساط بچھا کر تحریک کے جوش و خروش کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے کچھ انگریزی الفاظ استعمال کیے جائیں تو بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک کے مومنٹم کو ڈی فیوزکرنا چاہتی ہے، اس وقت پی این اے کے قائدین یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں دوبارہ انتخاب کے موضوع پر مذاکرات میں الجھا کر بھٹو صاحب اس تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں۔ بد اعتمادی اپنے عروج پر تھی بھٹو صاحب نے جب دیکھا کہ اتحاد کے رہنمائوں کو اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں تو انہوں نے ایک دنشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا وہ یہ کہ ایک دن ہم نے صبح اخبارات کے اندرونی صفحے پر ایک چھوٹی سی لیکن بڑی اہم خبر پڑھی کہ پاکستان میں اس وقت کے سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے پاکستان قومی اتحاد کے رہنمائوں سے ملاقات کی اور ان کو مذاکرات پر آمادہ کیا ظاہر ہے سفیر صاحب نے اپنی حکومت کی اجازت کے بغیر تو یہ ملاقاتیں نہیں کی ہوں گی سعودی عرب کی طرف سے یقین دہانی اور ضمانت ملنے کے بعد بھٹو صاحب اور اتحاد کے لیڈروں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔
پیر یکم نومبر کے اخبار کی سرخی پڑھی کہ حکومت و آرمی چیف کی کوششوں سے معاہدہ ہو گیا اس کا مطلب ہے کہ اس دفعہ بھی آرمی چیف کے درمیان میں آجانے سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ ان مذاکرات میں فیصلہ ہوا ہے کہ ٹی ایل پی کو سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے گا اس پر سے کالعدم کا لیبل ہٹا دیا جائے گا وہ آئندہ دھرنے نہیں دے گی سعد رضوی اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث افراد کے فیصلے عدالتیں کریں گی باقی رہا کردیے جائیں گے دھرنے کے شرکاء کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور یہ کہ ٹی ایل پی فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے دست بردار ہو جائے گی، معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک اسٹیرنگ کمیٹی قائم ہوئی جس کے سربراہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت اور وفاقی و صوبائی سیکرٹری دخلہ تحریک لبیک کی طرف سے مفتی غلام غوث بغدادی اور انجینئر حفیظ اللہ علوی رکن ہوں گے۔ مفتی منیب الرحمن اس معاہدے کے ضمانتی ہوں گے مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی نے کہا کہ یہ سب جنرل باجوہ کی برکتوں سے ہوا، مفتی منیب نے کہا کہ جوش پر ہوش غالب آگیا حکومت کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ کسی کی فتح یا شکست نہیں ہے بلکہ یہ اسلام اور پاکستان کی فتح ہے۔
اللہ کا شکر ہے جو کچھ ہوا وہ خیر سے ہو گیا، میں اے آر وائی سے پیر کے دن آنے والے ارشد شریف کے پروگرام میں دو شہید پولیس والوں کے گھر والوں کے تاثرات سن رہا تھا تو دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ جن پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں ان کے ہاتھ میں صرف ڈنڈے تھے اور جن کو رائفلیں دیں تو وہ بھی گولیوں سے خالی تھیں اس کو لوہے کا ڈنڈا سمجھ سکتے ہیں ایک پولیس والے کی بیوی کہہ رہی تھی کہ میرے شوہر پانچوں وقت کے نمازی اور سچے عاشق رسول تھے اسی کی بیٹی نے کہا کہ ابو مجھے روز اسکول چھوڑنے جاتے تھے اب کل کون مجھے اسکول چھوڑنے جائے گا ایک پولیس والے کے بھائی نے کہا کہ ہمارے شہید بھائی نے تو ایک مسجد تعمیر کرائی اور وہ ہر دو تین ماہ میں میلاد شریف کراتا تھا وہ خود سچا عاشق رسول تھا پروگرام میں پنجاب کے ایک سینئر پولیس آفیسر بھی آئے تھے ان شہداء کی جو پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی ہے اس میں ایس ایم جی کی گولیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ ایس ایم جی کیا ہوتی ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ اسمال مشین گن کہلاتی ہے جو کلاشنکوف کی طرح ہوتی ہے جب اینکر نے پوچھا کہ مظاہرین کے پاس اتنے جدید ہتھیار تھے تو آپ نے گولیوں سے خالی رائفلیں کیوں دی ہوئی تھیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور جب ان سے یہ سوال کیا کہ ایس ایم جی پر تو پابندی ہے اس کا لائسنس بھی نہیں ملتا تو یہ مظاہرین کے ہاتھوں میں کیسے آگئی اس پر بھی وہ خاموش رہے، تو ہم بھی اب خاموش ہوجاتے ہیں۔