…!سو جوتے اور سو پیاز بھی

539

حکومت نے مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کی کوششوں سے طے پانے والے معاہدہ کی روشنی میں تیز رفتار پیش رفت شروع کر دی ہے اس سلسلے میں پنجاب کابینہ نے کالعدم تحریک لبیک پر پابندی ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزارت داخلہ پنجاب نے تحریک لبیک کے نام سے کالعدم کا لفظ ختم کرنے سے متعلق سمری وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھجوائی تھی جنہوں نے کابینہ کے اجلاس کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر سمری کابینہ کے ارکان میں سرکولیٹ کروا دی۔ سمری کی منظوری کے لیے کم از کم اٹھارہ وزراء کی حمایت درکار تھی، مطلوبہ تعداد میں وزراء نے سرکولیشن سمری کے ذریے تنظیم پر پابندی ہٹانے کی سفارش کی۔ پنجاب کی تحریری سفارشات موصول ہونے کے بعد وفاقی حکومت اگلا قدم اٹھائے گی۔ علاوہ ازیں کالعدم تنظیم سے معاہدے سے متعلق پنجاب کابینہ کی سب کمیٹی نے تحریک لبیک کے مزید 100 کارکن رہا کرنے اور 90 افراد کے نام فورتھ شیڈول سے خارج کرنے کی منظوری دیدی۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کئے گئے مقدمات سے بھی تحریک کے کارکنوں کے نام خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز سیل لاہور نے بھی لانگ مارچ کے دوران سوشل میڈیا پر تحریک لبیک کے کارکنوں کی سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ تیار کر کے وزارت داخلہ کو بھجوا دی ہے۔ وزارت داخلہ اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد مزید ہدایات جاری کرے گی جن کی روشنی میں معاملہ کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ادھر حکومت کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں کے نتیجے میں عدالت عالیہ لاہور نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہماری درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ عدالت عالیہ نے درخواست قابل سماعت ہونے کے بارے میں دلائل مانگے تھے۔ دریں اثناء وزیر آباد میں تحریک لبیک کا دھرنا کل ساتویں روز بھی جاری رہا۔ گجرات جانے والے راستے بند ہیں۔ معمولات زندگی، کاروبار وغیرہ پوری طرح بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ شہر اور اطراف میں انٹرنیٹ کی سروسز تاحال بڑی حد تک معطل ہیں۔ سرکاری دفاتر کے ضروری امور بھی تعطل کا شکار ہیں۔ چناب ٹول پلازہ پر خندقیں ابھی تک بھری نہیں گئی ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں بائی پاس چوک کی طرح چناب ٹول پلازہ پر بھی رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ شہری اس ماحول میں سخت عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تاہم حکومت جس تیز رفتاری سے معاملات کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے، توقع ہے کہ صورت حال چند روز میں معمول پر آ جائے گی تحریک لبیک کے اس دھرنا سے متعلق حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ حکومت اور حکمران تحریک انصاف اس معاملہ میں شدید اندرونی انتشار کی شکار ہے۔ دھرنا کے دوران ایک جانب بعض حکومتی ذمہ داران ہر صورت حکومت کی رٹ برقرار رکھنے اور طاقت کے بھر پور استعمال کی دھمکیاں دے رہے تھے حتیٰ کہ تحریک لبیک پر غداری اور بھارت جیسے پاکستان کے ازلی دشمن سے امداد تک کے الزامات عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب حکومت اور تحریک انصاف ہی کے بعض دوسرے رہنما نہ صرف صورت حال کی اصلاح کے لیے کوشاں تھے بلکہ ان کی جانب سے آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اور تحریک لبیک میں انتخابی اتحاد تک کی باتیں بھی سامنے آئیں، تحریک انصاف کے اسی اندرونی خلفشار کے سبب حکومت کو دھرنے کے معاملہ پر سو جوتے بھی کھانے پڑے اور سو پیاز بھی۔ حکومت کی غلط حکمت عملی کے سبب کئی قیمتی انسانی جانوں کا بھی نقصان ہوا، قوم کو اربوں روپے روزانہ کا اقتصادی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا اور عوام کو بھی فریقین کے اقدامات کے سبب کئی روز تک شدید پریشانیوں اور ذہنی و جسمانی اذیت سے دو چار رہنا پڑا۔ مسئلے کا جو حل اب نکالا گیا ہے وہ اگر حکمت و تدبر سے کام لیا جاتا تو بہت پہلے تلاش کیا جا سکتا تھا مگر وفاقی کابینہ کے بعض ارکان اس معاملہ میں بگاڑ کو آخری حد تک پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ وزیر اعظم عمران خاں نے علماء کرام کے مطالبہ پر بہت اچھا کیا کہ وزراء کو اس معاملہ میں بیان بازی سے روک دیا۔ کابینہ کے دیگر ارکان نے تو وزیر اعظم کی اس ہدایت کے بعد اس مسئلہ پر بڑی حد تک خاموشی اختیار کر لی ہے مگر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہ کابینہ میں سیکولر اور لبرل عناصر کے امام ہیں، حالات میں بہتری آنے پر بری طرح پیج و تاب کھا رہے ہیں اور زبان بندی کے بعد اب ٹوئیٹر کا سہارا لے کر علماء کرام کی توہین، تضحیک اور شدید اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں جس کے سبب معاملات از سر نو بگڑ سکتے ہیں، وہ جب سے کابینہ کا حصہ بنے ہیں اپنی علماء دشمنی کا اظہار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، محترم مفتی منیب الرحمن جب رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے تو انہوں نے چاند دیکھنے کے مسئلہ میں خواہ مخواہ دخل اندازی کرتے ہوئے علماء کرام خصوصاً مفتی منیب الرحمن کو ہدف تنقید بنایا اور رویت ہلال کمیٹی ختم کر کے سائنسی حساب کتاب کے ذریعے رویت ہلال کے اعلان کا طریقہ کار اختیار کرنے کے اختراع چھوڑی، یہ الگ بات ہے کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی حیثیت سے ان کا تیار کروایا گیا ہجری کیلنڈر زیادہ دیر اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اب تحریک لبیک کے دھرنا کے بگاڑ کی انتہا کو پہنچتے معاملہ کو کابینہ کے معتدل سوچ کے حامل ارکان، اسپیکر قومی اسمبلی اور علماء کرام نے مل جل کر بڑی مشکل سے سنبھالا ہے اور بحران کو سنگین ہونے سے بچایا ہے مگر یہ فواد چودھری جیسے لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا اور وہ فریقین میں طے پانے والے معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف حربے آزما رہے ہیں چنانچہ اگلے روز فواد چودھری نے ضرب کلیم سے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے چند اشعار ٹویٹ کر کے اشتعال پھیلانے کی کوشش کی ہے اور لکھا ہے کہ ؎
میں نے اے میر سپہ ! تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیر
وحدت افکار کی، بے وحدت کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے ! قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
جناب فواد چودھری، کابینہ میں ان کے ساتھی اور پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ بنانے کے دعویدار ان سب کے امام خود جس قدر اہل، با صلاحیت، لائق اور صاحبان کرامت ہیں، پوری قوم سوا تین برس سے اس کے نتائج بھگت رہی ہے ان کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کے سبب ملک بھر کے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر یہ مخالفین پر طعنہ زنی اور اشتعال انگیزی سے باز نہیں آ رہے۔ جہاں تک تحریک لبیک کے دھرنے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حکومت کو اس بحران سے نکالنے کے لیے مسلح افواج کے سربراہ کو خود علماء کرام سے ملاقات کرنا اور مسئلہ کو احسن طور پر حل کرنے کے لیے یقین دہانیاں کرانا پڑیں۔ ورنہ فواد چودھری جیسے وزراء کے بیانات اور اشتعال انگیزیوں نے حکومت کے لیے اس بحران سے نکلنا نا ممکن بنا دیا تھا۔