سندھ کے کالجوں میں داخلوں کیلئے انوکھی شرائط سے طلبہ اور والدین پریشان

350

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) محکمہ تعلیم کالجز سندھ کی جانب سے گیارہویں جماعت میں داخلوں کے حصول کے لیے انوکھی شرائط لاگو کردی گئیں، نئی شرائط کو پوراکرنا طلبہ اور والدین کے لیے وبال جان بن گیا۔ شرائط سے والدین شدید ذہنی کوفت اورمالی بوجھ کا شکار ہو گئے ۔ حکومت سندھ نے تعلیمی ایمرجنسی اور اربوں روپے کے بجٹ کے باوجودتعلیم کے دروازے طلبہ کے لیے مزیدتنگ کردیے۔ سندھ الیکٹرونک سینٹرلائزڈ کالج ایڈمیشن پروگرام (ایس ای سی سی اے پی)کی جانب سے سندھ بھر کے طلبہ وطالبات کے لیے 5نومبر سے آن لائن پورٹل کے لیے داخلہ پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔کراچی کے علاوہ حیدر آباد بورڈکی جانب سے میٹرک کے نتائج جاری کیے جاچکے ہیں جب کہ دیگر بورڈز کی جانب سے بھی میٹرک کے نتائج جلد جاری کیے جانے کے امکانات ہیں۔کراچی اور حیدر آباد کے طلبہ 5نومبر سے سرکاری کالجز میں آن لائن داخلہ لینا شروع کردیں گے۔داخلے پالیسی کے مطابق سندھ بھر کے کالجز میں داخلہ لینے کے لیے 12 شرائط جاری کی گئی ہیں جن میں سے بعض شرائط نے طلبہ کے علاوہ والدین کو بھی شدید پریشان کردیا ہے۔ 12شرائط میں پہلے نمبر پر طالب علم سے پانچویں جماعت کا سرٹیفکیٹ، دوسرے نمبر پر آٹھویں جماعت کا سرٹیفکیٹ ، دسویں جماعت کا سرٹیفکیٹ ، دسویں کلاس کا کریکٹر سرٹیفکیٹ، دسویں پاس اور مارک شیٹ، ڈومیسائل،پی آر سی (مستقل رہائشی سند) کے علاوہ فارم سی کی بھی شرط عائد کی گئی ہے۔شرائط کے چھٹے نمبر میں نادرا سے منظور شدہ ویکسین سر ٹیفکیٹ، والد کا شناختی کارڈ، طالب علم کا ب فارم یا شناختی کارڈ، نویں کلاس کی امتحانی سلپ اور ہر طالب علم کی اپنی ای میل ہونا بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔معلوم رہے کہ امسال صرف کراچی میں ایک لاکھ 48 ہزار 940 طلبہ نے صرف سائنس گروپ کے تحت دسویں کا امتحان دیا ہے۔جن میں سے محتاط اندازے کے مطابق نصف طلبہ سے زایدکے پاس بھی ڈومیسائل او ر پی آر سی نہیں ہوگا۔جس کی وجہ سے ان پر ہنگامی بنیادوں پر ڈومیسائل اور پی آر سی بنوانے کا بوجھ بڑھ جائے گا۔کراچی میں پی آر سی اور ڈومیسائل 3ہزار سے4روپے بنتے ہیں۔ہنگامی بنیادوں پر ڈومیسا ئل او ر پی آر سی بنوانے کے لیے ڈپٹی کمشنرز کے ڈومیسائل برانچز کے باہرایجنٹ مافیا کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ طلب علم کا ڈومیسائل اور پی آر سی بنانے کے لیے والدین کا ڈومیسائل اور پی آر سی ہونا ضروری ہے۔ والدین میں سے کسی کا بھی ڈومیسائل اور پی آرسی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے والدین میں سے کسی کو اپنا ڈومیسائل اور پی آر سی بنوانا ہو گا اس کے بعد طالب علم کا ڈومیسائل بن سکے گا۔ ڈومیسائل اور پی آر سی بنوانے کے لیے کم از کم ایک ہفتے سے زاید کا وقت درکار ہوتا ہے جب کہ طلبہ پہلے ہی تعلیمی سال تاخیر سے شروع کررہے ہیں۔ معلوم رہے کہ اس سے قبل طلبہ و انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پاس کرنے کے بعد کسی بھی پروفیشنل ڈگری کے لیے یونیورسٹی میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے لیے داخلے لیتے تھے جن کے لیے پی آر سی اور ڈومیسائل درکار ہوتا تھا۔اس سے قبل طلبہ سے میٹرک کی سطح پر نویں جماعت کے انرولمنٹ کے وقت ب فارم لیا جاتا ہے تاکہ امیدوار کی تاریخ پیدائش معلوم کی جاسکے۔جب کہ دوسرے بورڈ کے طلبہ کوگیارہویں میں داخلہ دینے کے لیے مساوی سرٹیفکیٹ اور مائیگریشن کی شرط رکھی جاتی تھی جب کہ اب انوکھی شرائط عاید کی جارہی ہیںجس کی وجہ سے طلبہ کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ داخلہ پالیسی میں سفارشی کلچر کو فروغ دینے کے لیے نئی راہ نکالی گئی ہے، جس کو کھیلوں کوٹہ کا نام دیا گیا ہے، اس سے قبل گیارہویں میں تمام سرکاری کالجز میں میرٹ پر داخلہ دیا جاتا تھا جب کہ زیادہ سے زیادہ کسی اچھے کالج میں کلاس لینے کی اجازت دی جاتی تھی۔ تاہم اب کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران کی جانب سے ہر کالج میں اسپورٹس کوٹہ رکھا گیا ہے۔ اس سے قبل کالج میں 800 نمبر پر داخلہ بند ہونے کی صورت میں 799 نمبر والے طالب علم کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ تاہم اب ایسے طلبہ اور سفارشی طلبہ کو اسپورٹس کوٹے میں کھپانے کا دھندہ شروع کیے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔