مہنگائی کا طوفان:کیا عوام ہڑتال اور دھرنے کا راستہ اختیار کرے؟

514

مہنگائی کو ختم کرنے کے ارادے سے حکومت کے لوگوں کو کام کرنا چاہئے، مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ الزام تراشی یا عالمی مارکیٹ کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ہم تین سال سے اس انتظار میں ہیں کہ حکومتی سطح پر ایسے انتظامات ہوں گے جس سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی نظر آئے۔

مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ اس مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن سے پیٹرول اور بجلی کا استعمال ضرورت کے تحت ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ کے ساتھ ساتھ حکومتی ادارے بے دردی کے ساتھ پیٹرول کا استعمال کرتے ہیں۔ ہر بڑے آدمی یا وزیر کے ساتھ ایک قافلہ چلتا ہے جس سے پیٹرول کا ضیاع ہوتا ہے۔

دیکھایہ جارہا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی صورتحال کی بات کی جائے تو پچھلے وقتوں سے اچھی ہی نہیں بلکہ بہت اچھی ہوچکی ہے۔ اب نہ ہڑتال کا دور، نہ القاعدہ کا خوف، نہ اغواء کاروں کی تعداد میں اضافہ، نہ بم دھماکے ہیں مگر پھر بھی ہماری حکومت کے لوگ اور حکومتی اداروں کے لوگ اسی سیکورٹی پروٹوکول کے ساتھ گھومتے ہیں۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ جس قوم کے پاس معیشت میں بڑھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں، وہ قوم اپنی درآمدات کو بڑھا رہی ہے اور ایسی اشیاء درآمد کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سیاسی دباؤ پیدا نہ ہو یعنی گندم جو ہم خود اگاتے ہیں۔

اس اندیشے سے کہ گندم میں کمی نہ ہو، اسے بے تحاشا درآمد کیا جاتا ہے۔ مگر اس کی تقسیم اور ذخیرہ کرنا اور نمو کیلئے کوئی جمع تفریق نہیں کی جاتی۔ اس لیے ایک اندازے کے مطابق حکومت کبھی گندم، چینی، دالیں درآمد کرے گی اور پھر انہی اشیاء کو یا تو برآمد کردیا جاتا ہے یا افغانستان میں سرحد کے ذریعے بیچ دیا جاتا ہے جسے اسمگلنگ کہتے ہیں۔

بجلی کی کمی ملک بھر میں ہے اور اس کے باوجود برقی گاڑیاں درآمد کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس پر ڈیوٹیز بھی ہٹا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور اس اضافے کی وجہ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔

ٹرانسپورٹ سسٹم میں بہتری لانے کی بجائے حکومت لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ موٹر سائیکلز اور گاڑیاں خریدیں مگر حکومت یہ نہیں سوچتی کہ عوام جو موٹر سائیکل اور گاڑیاں خرید رہی ہے، وہ پیٹرول سے چلتی ہیں، پانی سے نہیں۔ پیٹرول کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے ہمارا درآمدی بل بڑھتا چلا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر عمران خان سے کہتے ہیں کہ عالمی آئل مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت کو بڑھانا پڑے گا۔ جب انٹرنیشنل مارکیٹ اپنے عروج پر 85.41ڈالر پر پہنچی تو حکومت نے پیٹرول کی قیمت بڑھاتے ہوئے 137.79 روپے لٹر کردی۔

آج بین الاقوامی مارکیٹ دباؤ میں آرہی ہے اور قیمتیں 7 فیصد نیچے گر چکی ہیں۔ آج تیل کی قیمت 79.35ڈالر ہے مگر حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں کمی لانے کی بجائے 5فیصد اضافہ کردیا اور اسے 145.89 روپے لٹر پر لے آئی۔

بلا جواز طور پر پیٹرول مہنگا کرنے کی بجائے اگر بین الاقوامی منڈی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 7 فیصد کم کردیتی تو شاید عوام کو امید نظر آجاتی کہ حکومت سنجیدہ طور پر مہنگائی کم کرنے کیلئے کام کر رہی ہے۔

جس حکومت کو مہنگائی میں اضافے کا صرف جواز نظر آتا ہے، وہ حکومت دوسرے ممالک کے بارے میں بات کرتی ہے مگر اپنے ہی ملک کے حالات کی طرف نہیں دیکھتی۔ ایسا نہ ہو کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور اس حکومت کے خلاف مجبوراً ہڑتال اور دھرنے کا راستہ اپنائے۔

عمران خان نے خود بھی دھرنے کا طریقہ اختیار کرکے عوام کو سکھایا تھا۔ درخواست یہ ہے کہ یا تو مہنگائی کو کم کریں یا خود عوام کو یہ بتائیں کہ مہنگائی کم کرنا ان کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی قابل ماہرِ معاشیات موجود ہے۔

عوام منتظر ہیں کہ یا تو کوئی مسیحا آئے یا عمران خان کو مہنگائی کا احساس ہوجائے۔