افغانستان کے خلاف سازشیں؟

440

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کرے اور اس مقصد کے لیے امریکا اور مغربی طاقتوں کی طرف نہ دیکھے۔ جنگ سے تباہ حال ملک کے عوام کو امن اور ترقی کی ضرورت ہے۔ جن عالمی طاقتوں نے گزشتہ عرصے میں افغانستان کے امن و سکون کو برباد کیا ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک کی تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کریں۔ اسلامی دنیا افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان کی حکومت کی خاص ذمے داری ہے کہ وہ افغان حکومت کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ افغانستان میں امن کا قیام جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔ افغان عوام کی فتح جذبہ ایمانی اور حریت کی مادّی طاقتوں پر فتح ہے۔ افغان عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ محکوم بن کر نہیں رہ سکتے، افغانستان میں سپر پاور کی پسپائی نے پوری دنیا کے مسلمانوں اور آزدای پسندوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومت پاکستان سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ پشاور میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان افغانستان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کے بعد سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا کے احکامات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ امریکا کو انکار کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے ابھی تک افغانستان کی حکومت کو جائز اور قانونی حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس وجہ سے بعض حلقوں میں یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ زبانی دعوئوں کے باوجود پاکستان کے موجودہ حکمران بھی سابقہ پیش رو حکومتوں کی طرح امریکی احکامات کو مانتے ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آچکا ہے کہ امریکی فوج کو افغانستان میں کارروئی کرنے کے لیے فضائی راہداری کی اجازت دینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے، لیکن امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور موجود ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکا کو پڑوسی ممالک میں فوجی اڈوں کی تلاش ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکا جیسی سپرپاور کو تمام یورپی ممالک کی مدد اور پاکستان کی جانب سے سہولت فراہم کرنے کے باوجود جس رسوائی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی حالیہ سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب تو افغانستان کی سابقہ امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ کے ارکان بھی امریکی فوج پر دھوکا دہی کا الزام لگارہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی رسوائی کے اثرات کو مسلم ممالک میں پھیلنے سے روکنے کے لیے سازشیں شروع ہوگئی ہیں۔ طالبان کی جانب سے افغانستان کے اوپر پرامن کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پوری دنیا کی حکومتوں کا فرض تھا کہ افغان عوام کی مدد کرتیں اور اپنے جرائم کا ازالہ کرتیں لیکن امریکا کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے ذریعے نیا سازشی کھیل شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں اور گروہ کو اکسایا جارہا ہے اور ان کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس تناظر میں چین اور روس سمیت دیگر پڑوسی حکومتیں افغان حکومت سے معاہدے کررہی ہیں، لیکن طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے پیش قدمی نہیں کررہی ہیں۔ اس لیے یہ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ سیاسی و سفارتی سطح پر پیش قدمی کرے، طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے حالات ساز گار کرائے۔ اس دوران میں امریکا افغانستان کے پڑوس میں فوجی اڈے قائم کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا بھارت میں اپنے اڈے بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے بھارت سے اپنا علاقہ کچھ وقت کے لیے پینٹاگون کو دینے کا کہا ہے۔ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ بھارت کو اس بات کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان میں کارروائی کے لیے فوجی اڈے بنانے کے لیے فراہم کرے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا افغانستان کے قریب فوجی اڈوں کے لیے بات چیت کرتا رہے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کو درخواستیں مل چکی ہیں جو مسترد کردی گئی ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے یہ بھی یاد دلایا کہ صدر پیوٹن نے جولائی میں جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں امریکی صدر سے کہا تھا کہ روس وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی سرزمین پر امریکی فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعیناتی کے لیے معاہدے کرنے کی کوششوں کے خلاف ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے انکشاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے امریکا اور یورپی طاقتیں مسلسل لگی ہوئی ہیں اور اس مقصد کے لیے افغان حکومت کو غیر ضروری معاملات میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام کی غیر ملکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے افغان حکومت کو تسلیم کرنا لازمی ہے۔ افغانستان کی پڑوسی حکومتیں افغانستان کے ساتھ مختلف معاہدے کررہی ہیں۔ اس لیے افغانستان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہ کرنے کے فیصلے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس دوران مختلف ملکوں میں افغانستان کے بارے میں مختلف عالمی اجتماعات بھی منعقد ہوچکے ہیں۔ جن میں مثبت اور منفی مقاصد دونوں شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد بھارت بھی کررہا ہے۔ اس خطے میں امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ خطرے کی گھنٹی ہے۔ طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان میں بھارت کا کردار غیر موثر ہوچکا ہے، لیکن امریکا کی کوشش ہے کہ وہ اسے برقرار رکھے تا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ناکام بنایا جاسکے۔ پاکستان کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی طلب کردہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ نئی دہلی کا مقصد امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے، وہ قیام امن کے لیے کیسے کام کرسکتا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے بارے میں دہلی کانفرنس میں عدم شرکت کا اعلان ازبکستان کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل وکٹر مخمودوف سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔ ازبکستان کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری پاکستان کے تین روزہ دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خطے اور عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے افغانستان میں امن کتنی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ خطہ مسلمان ممالک کا سمندر ہے اور اس سمندر میں بھارت ایک جزیرہ ہے۔ لیکن کیا ہماری مقتدرہ پاکستان کے لیے خطرات اور امکانات کا حقیقی ادراک رکھتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے اسے صرف اپنے اقتدار اور مفادات سے غرض ہے۔ امریکا کی تو تاریخ یہی ہے کہ جہاں جاتا ہے پٹتا ہے، جھوٹ بولتا ہے نکالا جاتا ہے اور پھر وہاں فساد پھیلاتا ہے۔ ویتنام اور عراق اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ امریکا کو ان سازشوں میں ناکام بنانا ہی دنیا کی کامیابی ہے۔