ن لیگ کے بیانیے

326

اردو بول چال میں بہت سے الفاظ متروک ہوتے جارہے ہیں اور کچھ نئے داخل ہوگئے ہیں ایک زمانے میں جب کسی کام میں کوئی رکاوٹ ڈالتا تو ہم کہتے یار اس نے گڑ بڑ کردی یا یہ کہ کام ہونے والا تھا اس نے اڑپیچ ڈال دی۔ اب رکاوٹ، اڑپیچ، گڑ بڑ اور اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ کی جگہ لفظ پنگا ہماری بول چال میں داخل ہو گیا ہے پہلے تو نوجوان آپس میں ہنسی مذاق میں یہ لفظ بولتے تھے لیکن اب کچھ سنجیدہ افراد کو بھی استعمال کرتے دیکھا ہے۔ اسی طرح ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اس کا کیا خیال ہے،کیا نظریہ ہے یا کیا موقف ہے اب ان تینوں کا متبادل ایک لفظ بیانیہ ایجاد کرلیا یہ لفظ ویسے تو بیان سے بنا ہے لیکن معنی میں فرق ہے بیانیہ کو انگلش میں Narrative کہتے ہے۔ ایک پروگرام میں اعتزاز احسن نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بیانیہ کی جگہ لفظ موقف استعمال کرنا چاہے۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یہ موضوع کافی دنوں سے میرے ذہن میں تھا درمیان میں اور بہت سے سیاسی واقعات ہوئے جس میں افغانستان کا مسئلہ اور اسی سے جڑے دیگر عنوانات، تازہ مسئلہ شہباز شریف کے بیٹے کا لندن کی عدالت کا فیصلہ پھر اس کے بعد پاناما لیک کی طرح پنڈورا لیک کی تفصیلات، آگے چل کر ان تمام موضوعات پر موقع بہ موقع اظہار خیال کیا جائے گا۔ یہ بات تو ملک کا ہر وہ شخص جو ذرا سا بھی ملکی سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتا ہے وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ن لیگ میں واضح طور پر دو گروپ ہیں ایک گروپ کی قیادت مریم نواز کرتی ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت شہباز شریف صاحب کرتے ہیں۔ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں اور شہباز شریف نرم لہجے میں مخاطب کرتے ہیں یعنی مریم نواز مزاحمت کی پالیسی رکھتی ہیں اور شہباز شریف مفاہمت کی۔
اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے خود اسٹیبلشمنٹ کس چڑیا کا نام ہے اس کی وضاحت ہوجائے کہ یہ کسی انسٹی ٹیوشن کا نام ہے، کسی طرز فکر کا ترجمان ہے یا کچھ با اثر افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ عام لوگ تو اسٹیبلشمنٹ کا مطلب فوج کا ادارہ سمجھتے ہے۔ کچھ لوگ اسے خلائی مخلوق، ہوائی مخلوق کہتے ہیں تو کچھ اسے مقتدر قوتوں کا نام دیتے ہیں۔ جنرل ایوب خان کی حکمرانی سے فوجی حکومتوں کا آغاز ہوا تھا۔ ایوب خان کے دس سال۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ برس جنرل یحییٰ کے تین سال اور پھر جنرل مشرف کے آٹھ سال ملا کر اس ملک میں کم و بیش بتیس سال فوج براہ راست برسر اقتدار رہی ہے اس وقت ان حکومتوں کی کارکردگی زیر بحث نہیں ہے بلکہ جو بات ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہیے وہ یہ کہ اس ملک میں قیام پاکستان کے بعد شروع کے گیارہ برس جس میںسیاسی اتھل پتھل ہی رہی، کو الگ کردیا جائے تو بقیہ کی پوری مدت میں فوج ہی اقتدار میں رہی ہے کبھی براہ راست سامنے رہ کر اور کبھی پیچھے رہ کر، جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کا مطلب فوج کو سمجھتے ہیں ایک لحاظ سے تو وہ ٹھیک ہی سمجھتے ہیں لیکن اب اس کے ساتھ کچھ اور دوسرے عوامل اور عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں بالخصوص وہ عوامل جو اقتدار کی راہداریوں میں اپنا ایک خاص اثر رسوخ رکھتے ہیں اس میں سول بیوروکرسی، ریٹائرڈ فوجی اور بڑے کاروباری لوگ شامل ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ الیکٹیبل کے نام سے ملک کے بڑے کاروباری حضرات کسی خاص اشارے پر اور ایک خاص ٹائمنگ پر ایک پارٹی میں دھڑا دھڑ شامل ہونے لگتے ہیں کچھ با اثر بیوروکریٹس بھی اس پارٹی میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر وقت پورا ہوجانے پر اسی تیزی سے واپسی کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی اس تشریح کے بعد ہم اپنے اصل موضوع پر واپس آتے ہیں کہ ن لیگ میں یہ دو بیانیہ کیوں کیسے اور کب سے چل رہا ہے۔ 1999 سے پہلے تک ن لیگ میں ایک ہی بیانیہ یعنی ملک کی مقتدر قوتوں سے مفاہمت کا بیانیہ چل رہا تھا۔ لیکن جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ن لیگ میں مفاہمت کی سوچ کو گہری چوٹ لگی وہ چوٹیں کیا کیا تھیں اور اس ملک کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوئے یہ اس وقت کا موضوع نہیں ہے البتہ یہ کب، کیوں اور کیسے کا جواب یہ ہے۔ 2008 سے 2013 کے درمیان جب ملک میں پی پی پی برسراقتدار تھی تو ایک خاص سیاسی اور گروہی مفادات کی خاطر پی پی پی کو اٹھارویں ترمیم میں ن لیگ کی سیاسی حمایت کی شدید ضرورت پڑ گئی۔ اس ترمیم کے ذریعے تیسری مرتبہ وزیر اعظم نہ بننے کی پابندی کو ختم کیا جارہا تھا ن لیگ اسی لیے پی پی پی کا اٹھارویں ترمیم کی منظوری میں ساتھ دے رہی تھی کہ نواز شریف کے راستے میں تیسری بار وز یر اعظم بننے کی رکاوٹ ختم ہورہی تھی۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مرحلے سے مزاحمت کی سیاست کا آغاز ہونا تھا، اور پھر 2013 سے 2018 تک ملکی سیاست میں مزاحمت اور ٹکرائو کی سیاست غالب رہی۔ اور اسی وجہ سے پاناما لیگ کے بہانے سے نواز شریف صاحب کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے بعد ایک مرحلے پر مفاہمت کی پالیسی مزاحمت پر غالب آچکی تھی اور 2018 کے الیکشن کے بعد شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کا فیصلہ ہو گیا تھا بلکہ بعض دانشوروں کے مطابق کابینہ کے وزراء کے نام تک فائنل ہو چکے تھے لیکن نہ معلوم کن وجوہات کی بنیاد پر یہ منصوبہ اپنی موت آپ مر گیا۔ اسی لیے 2018 کے انتخاب کے بعد سے اب تک مزاحمت اور مفاہمت کا سلسلہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
چونکہ ن لیگ کی عوامی پوزیشن دیگر جماعتوں سے مضبوط ہے اور اس کے آئندہ کے انتخابات میں کامیابی امکانات روشن ہیں اس لیے اس مرحلے پر وہ یہ نہیں چاہے گی کہ مزاحمت کی پالیسی پر اتنی سختی اختیارکی جائے کہ خلائی طاقتوں کا ارادہ ہی بدل جائے اور دوسری طرف مفاہمت کے رویے کو اتنا شدت سے نہ اپنایا جائے عوام ن لیگ کی طرف سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں اسی لیے ن لیگ نے ایک ہاتھ میں مزاہمت کے پتھر اور دوسرے ہاتھ میں مفاہمت کے پھول کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے تا کہ بوقت ضرورت دونوں سے کام لیا جاسکے۔