قرضوں کی معیشت

472

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے سیاسی زندگی میں قرض اتارو ملک سنوارو اور خود انحصاری کا نعرہ لگایا تھا۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزادی دلانے کا قوم کو خواب دکھایا، لیکن دونوں مقبول عوام سیاسی رہنما اپنے وعدوں میں ناکام ہوچکے ہیں اور پاکستان سامراجی طاقتوں کی گرفتار میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اقتصادی آزادی کا تصور بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ قرضوں کی معیشت نے عام آدمی کے لیے زندگی عذاب بنادی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء میں مجموعی قرضہ 249 کھرب 53 ارب تھا جو 2021ء میں بڑھ کر 398 کھرب 59 ارب روپے ہوگیا ہے۔ قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے پاکستان کے ایک ممتاز ماہر معیشت اکبر زیدی نے کہا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم مقروض ہیں اور اس قرض میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف امداد کرنے نہیں بلکہ قرض دینے آتا ہے اور قرض کی واپسی سود کے ساتھ ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم تاحال صر ف سود ہی ادا کررہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی تک ابھی پہنچے ہی نہیں‘‘۔ قرضوں کی معیشت نے ہمارے حکمراں طبقہ کو بدعنوان بنایا ہے اور اس عمل نے سیاسی آزادی کو بھی غلامی میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق نظام عصر حاضر کے فساد اور علاج کا ادراک کرنے والی قیادت کی تخلیق کرنے سے بھی قاصر ہوچکا ہے۔ ساری سیاست محض نعرہ بازی کے گرد گھوم رہی ہے۔