پرچی

404

ابن انشاء نے اپنی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں نکتے کی تعریف یوں بیان کی ہے۔ نکتہ یعنی بندی یعنی پوائنٹ۔ نکتہ جگہ نہیں گھیرتا۔ ایک آدھ نکتے تک تو بات ٹھیک ہے۔ لیکن جب بات چھ نکات کی ہو تو آپ پورا مشرقی پاکستان گھیر سکتے ہیں۔ یہی حال پرچی کا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ نہایت چھوٹا اور حقیر سا ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ مگر ہے بڑے کام کی چیز۔ ہمارے اسلام آباد کے دوست اور شاعر مرحوم بیدل جونپوری فرماتے ہیں کہ:
مکھن ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
ہم اس کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یوں کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ مکھن اور پرچی کی تاثیر ایک ہی جیسی ہے۔
پرچی ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہلے زمانے میں جب سوشل میڈیا نہ تھا تو عاشق حضرات خط و کتابت سے کام چلاتے تھے جس کے لیے ڈاکیہ ہوتا تھا۔ مگر اس میں اندیشہ تھا کہ اکثر جب محبوب بوڑھا ہونے لگتا اور عاشق سے ملاقات ایک سراب محسوس ہونے لگتی تو وہ بے چارہ عاشق پر چار لفظ بھیج کر ڈاکیہ پر گزارہ کرکے ہنسی خوشی باقی زندگی گزارتا۔ ایسے میں بھائی لوگوں نے کبوتر سے کام لینا شروع کردیا۔ ظاہر ہے کبوتر بے چارہ بھاری بھرکم خط مع لمبی چوڑی غزل کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھا۔ لہٰذا پرچی کا رواج شروع ہوا۔ اس طرح مختصر نویسی یعنی خلاصے کی ابتدا ہوئی۔ کبوتر باآسانی پرچی پہنچا دیتا تھا۔ خیر یہ تو فرصت کے زمانے کی بات ہے جب کرنے کو کچھ نہ تھا۔ مگر جیسے ہی جہان تگ و دو میں مارا ماری شروع ہوئی۔ اور کان کھجانے کے لیے بھی نوکروں کی خدمات لی جانے لگیں۔ مشینی زندگی کا آغاز ہوا۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو یہی پرچی بڑے بڑے کام کرنے لگ گئی۔ بینک میں پرموشن کا زمانہ تھا اور ایک صاحب جو کام کاج سے کوسوں دور تھے مگر ان کے ماموں اسی بینک میں ایک بڑے عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور اب بھی کسی دوسرے بینک کے صدر تھے۔ عین پرموشن والے دن وہ صاحب اپنے ماموں کی پرچی لیکر آگئے اور پر موٹ ہوگئے جب کہ دوسرے اہل حضرات منہ دیکھتے رہ گئے۔ کسی محکمے میں آپ کا کوئی کام پھنسا ہو اور ہوکر نہ دے رہا ہو۔ ایسے میں کوئی جاننے والا نکل آئے اور ایک پرچی آپ کے ہاتھ میں تھمادے۔ تو پھر آپ تاثیر دیکھیں اس پرچی کی۔ جو افسر پہلے سیدھے منہ بات نہ کرتا تھا۔ اب وہی آپ کو چائے بھی پلائے گا۔ آپ کا کام بھی کرے گا اور بھابھی اور بچوں کی خیریت بھی پوچھے گا۔ اسی طرح روزانہ انٹرویو میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سے ایک قابل امیدوار کو فیل کردیا جاتا ہے اور ایک نااہل اور ناکارہ کو محض ایک پرچی کی بنیاد پر نوکری پر رکھ لیا جاتا ہے۔ بلکہ پورا سیلیکشن بورڈ۔ میرٹ اور ترجیحات پر لعنت بھیج کر پرچی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ اور اہل امیدوار کو فیل کرنے کے لیے کچھ یوں سوال کرتا ہے۔ ’’واٹ از دا میننگ آف ایچک دانہ اینڈ پیچک دانہ ان اکنامکس‘‘ اب اہل امیدوار سوائے دیوار کو ٹکر مارنے کے اور کیا کرسکتا ہے۔ اور بورڈ اور نصیب کو کوستا ہوا سوچتا ہے کہ کس ملک میں پیدا ہوگیا۔ جہاں نیچے سے اوپر تک ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔ انجام گلستاں کیا ہوگا؟؟
اب تک ہم نے ان پرچیوں کا ذکر خیر کیا ہے جو حامل ہٰذا کے برے وقت میں کچھ نہ کچھ کام آجاتی ہیں۔ اب ہم آتے ہیں اس پرچی کی طرف جس کو دیکھ کر اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے۔ یعنی ’’بھتے کی پرچی‘‘ اس پرچی سے اکثر عوام کا واسطہ اس وقت پڑتا ہے جب خیر سے وہ خوشحال ہو۔ کاروباری شخصیت ہو۔
اچانک کوئی مل گیا ہے یونہی چلتے چلتے
یعنی سر راہے ایک گمنام شخص آپ کو ایک پرچی تھمادیتا ہے۔ جس میں سے ایک عدد گولی بھی برآمد ہوتی ہے جو پستول کی گولی ہوتی ہے مگر اس کو دیکھتے ہی آپ کی سٹی گم ہوجاتی ہے اور آپ کو بلڈ پریشر اور سردرد کی گولیاں کھانی پڑ جاتی ہیں۔ پرچی پر لکھا ہوتا ہے تین دن کے اندر اندر دس کروڑ کی رقم ادا کردو ورنہ …
فقط تمہارا دوست۔ عرف کالا ناگ۔ ملنے کا پتا…
ساتھ ہی یہ دھمکی ہوتی ہے کہ پولیس سے رابطہ کرنے کی غلطی مت کرنا ورنہ… ایسی پرچیوں کا انجام یا تو مک مکا پر ہوتا ہے اور باوجود منع کرنے کے فریقین پولیس کے ذریعہ ہی معاملات طے کرتے ہیں اور پولیس کو بھی خرچہ پانی سے فیضیاب کرتے ہیں۔ بصورت دیگر ایک پولیس مقابلہ ہوتا ہے جس میں آپ یا بھتا خور نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس میں قسمت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ کیونکہ بات نشانہ بازی پر ختم ہوتی ہے۔ اب اگر ایسی صورت حال ہو تو۔
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
کب تک ہے فریقین کا آب و دانہ
خیر اتنی ڈرائونی باتوں کے بعد اب قارئین کا حق بنتا ہے کہ کسی اور پرچی کا ذکر کیا جائے۔ آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے میمن بھائی کاروبار میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ویسے تو سٹے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً کھارادر اور میٹھادر کے قرب وجوار میں اسٹیٹ بینک کے پرائز بونڈز کا ایک متوازی نظام بھی چل رہا ہے۔ ان لوگوں کے پاس پرائز بونڈ نہیں ہوتے۔ یہ صرف اس کا نمبر اور سیریز بیچتے ہیں اور ایک پرچی پر لکھ کر دیتے ہیں۔ اب نہ پرائز بونڈز ہیں نہ ہی کوئی آفس ہے۔ نہ ہی کوئی قرعہ اندازی ہے۔ بس آپ کے پاس صرف ایک پرچی ہے۔ اب اسٹیٹ بینک جو قرعہ اندازی کرکے نتیجہ اعلان کرتا ہے اسی سے فیضیاب ہوکر لین دین ہوتا۔ یوں تو ٹھرک مٹانے کے لیے بغیر پرچی بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ ہمارے دو میمن بھائی اپنی فلیٹو زندگی سے تنگ آکر ہوا خوری کے لیے بلڈنگ کے تھڑے پر فٹ ہاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ منہ میں گٹکا اور پان دبا رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً قرب وجوار کے ماحول کو گل و گلزار بنا تے رہتے ہیں۔ اب طے کرتے ہیں کہ اگر لال گاڑی سامنے سڑک پر سے گزری تو میں جیتا ورنہ تو جیتا۔ لگی سو سو کی۔ ہاں لگی۔ لو جی نہ ہینگ نہ پھٹکری اور نہ ہی کوئی پرچی اور رنگ بھی چوکھا۔
پس ثابت ہوا کہ ہمارا پورا ملک اور اس کا نظام پرچی پر ہی چل رہا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں ہم نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا بڑا چرچا سنا۔ مگر ساری سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن پرچی کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ خود مشین بھی بالآخر ایک عدد پرچی ضرور نکال کر دے گی۔ سابقہ الیکشنوں میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ ووٹ یعنی پرچی کو عزت دو کے نعرے پر ختم ہوئے اور فارم 45 کا بھی مطالبہ جاری رہا جو کہ پرچی کی ہی ایک قسم ہے۔ یعنی
کسی بھی صورت پرچی سے جان چھوٹتی نظر نہیں آتی
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جن کی جان پتے میں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سب کی جان بھی پرچی میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک پرچی ہوتی ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن سے اوجھل رہتی ہے۔ یہ وہ آخری پرچی ہے جو گزشتہ تمام پرچیوں کا کھیل ختم کردیتی ہے۔ جس کو ملک الموت لیکر آتے ہیں۔ جس کے بعد کسی اور پرچی کی ضرورت نہیں رہتی۔
پرچی نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے