لیجے پنڈورا پیپرز باضابطہ سامنے آگئے۔ 90 ممالک کی 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے ہیں لیکن پاکستانیوں کو اس سے غرض نہیں کہ دنیا کے کس ملک کے طاقتور لوگوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں انہیں اپنے ملک کے لوگوں سے غرض ہونی چاہیے۔ لیکن اب تک پاکستانی قوم اس معاملے میں بالکل بے تعلق رہی ہے۔ اسے فرق نہیں پڑتا کہ کل جو چور مسلم لیگ میں تھے آج وہ پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں آچکے ہیں اور اب بھی حکومت میں ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین، مونس الٰہی، فیصل واوڈا، شرجیل میمن، اسحق ڈار کے بیٹے علی ڈار، خسرو بختیارکے بھائی، کئی تاجر، میڈیا مالکان سابق فوجی افسران اور ان کے رشتے دار اور دیگر لوگوں کی کمپنیاں اس میں شامل ہیں۔ غرض اشرافیہ کا ہر طبقہ موجود ہے ۔اب پھر وہی کچھ ہوگا کہ کمپنیاں ہیں تو کیا ان کمپنیوں کو قانون کے مطابق سرمایہ فراہم کیا گیا۔ کیا ان کو فراہم کیا جانے والا سرمایہ حلال ذرائع سے کمایا گیا اور جائز قانونی طریقے سے بھیجا گیا تھا یا نہیں۔ لیکن جس طرح پاناما کے چار سال گزر گئے ایک کھچڑی بنی ہوئی ہے کسی کے بارے میں کچھ پتا نہیں کہ کس نے مال کہاں سے کمایا، کہاں خرچ کیا، پیسے کیسے منتقل ہوئے، اسی طرح اس مرتبہ بھی وکیلوں کے دفاتر کھلیں گے۔ قانون کے سقم دیکھ کر راستے نکالے جائیں گے، پرانی تاریخوں میں فائلیں تیار کی جائیں گی، پھر کوئی فانٹ کا مسئلہ نہیں آنے دیا جائے گا اور تمام چوروں کے لیے نئے چور دروازے تیار ہوجائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلان تو کردیا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں سے تحقیقات ہوگی۔ لیکن یہ تحقیقات کیسی ہوگی؟ جیسی پٹرولیم مافیا اور چینی و گندم مافیا سے ہوئی ۔تحقیقات کے بعد چینی مارکیٹ سے غائب ہوگئی اور زرعی ملک کو چینی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ پٹرول کی قیمت 127 روپے تک پہنچ گئی۔ اس سارے معاملے میں نقصان اٹھانے والے صرف پاکستانی عوام ہوں گے۔ وزیراعظم جس قسم کی تحقیقات کرنے کی بات کررہے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ نیب، ایف آئی اے وغیرہ حکومتی کنٹرول سے آزاد ہوں اور ان میں ایماندار افسران کا تقرر کیا جائے۔ یہ دونوں کام پاکستان میں بہت مشکل لگتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ان مناصب پر تقرر کرتے ہیں اور یہ دونوں نہیں چاہیں گے کہ کوئی ایماندار فرد یہاں تعینات ہو، البتہ اب اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ نیب چیئرمین اور الیکشن کمشنر کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کا جھگڑا ختم ہوجائے اور وہ دونوں کسی ایسے فرد پر متفق ہوجائیں جو ان کے خیال میں معاملات کرنے میں ان کے لیے آسان ہو۔ فی الحال جو نام سامنے آئے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے وزرا بھی شامل ہیں اب وزیراعظم تحقیقات سے قبل اپنے اصول کے مطابق ان تمام لوگوں سے استعفا لے لیں جو ان کے ماتحت ہیں اگر کوئی سرکاری افسر ہے تو اس سے بھی استعفا لے لیا جائے۔ دوسرا کام وزیر اعظمخود کریں کہ اس مرتبہ پاناما کی طرح معمول کی تحقیقات نہ کریں بلکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور تمام اداروں کے مشورے سے الگ کمیشن قائم کریں جو عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں کام کرے۔ حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن وزیراعظم خود خصوصی سیل بنا کر اس کے سربراہ بن بیٹھے ہیں۔ اب حکومتی پارٹی اس کے حلیفوں اور وزرا سے کون تحقیقات کرے گا اور کیسی؟؟۔ پاناما لیکس میں 600 سے زیادہ پاکستانیوں کے نام آئے تھے لیکن حکومت نے صرف چند کے خلاف کارروائی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی لوگ صاف بچ گئے۔ سارا پاکستان گواہ ہے کہ جس وقت پاناما کا معاملہ سامنے آیا تھا جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل قاضی حسین احمد جب امیر تھے اس وقت جماعت اسلامی ارکان اسمبلی کے لیے دفعہ 62,63 کی شرط پر سختی سے عمل کا مطالبہ کرتی تھی جس پر سابق چیف جسٹس پاکستان نے تبصرہ کیا تھا کہ اگر 62,63 پر سختی سے عمل ہوا تو پارلیمنٹ میں صرف سراج الحق بچیں گے۔ شاید یہی خوف حکمرانوں کو لاحق ہو کہ اگر دفعہ 62,63 پر عمل کیا گیا تو جماعت اسلامی کے لوگ اور ان جیسے لوگ ہی پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ لیکن یہ بات تو بر سبیل تذکرہ کی گئی تاہمجن لوگوں نے 1973ء کا آئین بنایا تھا انہوں نے آرٹیکل62,63 شامل کرتے وقت یہی سب کچھ ذہن میں رکھا ہوگا کہ ملک کی پارلیمنٹ میں شفاف کردار والے لوگوں کو ہونا چاہیے ۔اگر ابتداء سے آئین پر پوری طرح عمل ہو رہا ہوتا تو پاکستان میں بد عنوان لوگوں کی گنجائش ہی نہ رہتی اس لیے حکمراں اور اپوزیشن آئین کے خلاف ایک ہو جاتے ہیں تاکہ پارلیمنٹ میں ان کاکلب ہی بالا دست رہے ۔ یہ کلب اب پارلیمنٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے ۔ پورا انتظام ان کے قبضے میں ہے ان کی مرضی کے بغیر اب کوئی الیکشن لڑ سکتا ہے نہ جیت سکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے تیز رفتاری کے ساتھ جو فیصلہ کیا ہے کہ خود تحقیقاتی سیل کے سربراہ بن گئے ہیں ان کو تو یہ کام کرنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ وہ ان لوگوں کے سربراہ ہیں جن کے نام پنڈورا پیپرز میں ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں کے خلاف تحقیقات ہونی ہیں ان کا سربراہ ہی خود تحقیقات کرے ۔ کیا وزیر اعظم شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کی ذمے داری شہباز شریف یا حمزہ کو یا مریم نواز کو دینے کو تیار ہوں گے ۔ وہ تو چیئرمین نیب کے مسئلے پر یہ کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف سے مشاورت کا مطلب یہ ہو گا کہ چور سے پوچھا جائے کہ آپ کی تفتیش کون کرے گا ۔ اب چوروں کے لیٖڈر خود تحقیقاتی سیل کے سربراہ بن گئے ہیں ۔ پہلا قدم ہی غلط ہے تو نتائج کیا ہوں گے ۔بات صرف وزیر اعظم کے تحقیقاتی سیل کا سربراہ بننے تک رہتی تو بھی کوئی امکان تلاش کیا جا سکتا تھا کہ شاید کپتان ملک کے بہترین مفاد میں منصفانہ تحقیقات کریں گے لیکن ان کی ٹیم کے ایک اہم وزیر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جو اعلان کیا ہے اس سے حکمرانوں کی بد نیتی سامنے آ گئی ہے ۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بعض بڑے میڈیا مالکان کا نام پنڈورا پیپرز میں آ گیا ہے وزارت اطلاعات نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے ۔ جن لوگوں کو وزارت اطلاعات نوٹس دے گی ان کو تحقیقاتی سیل کے سامنے پیش ہو کر وضاحت کرنی پڑے گی ۔ گویا حکومت پنڈورا پیپرز کے نام پر میڈیا کے خلاف اپنا ’’غبار ‘‘نکالنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ پنڈورا پیپرز میں صرف پی ٹی آئی والے شامل نہیں ہیں ۔ صرف سیاستدان نہیں ہیں۔ اپوزیشن والے بھی ہیں اور سابق فوجی افسران کے نام بھی ہیں ۔ اس معاملے کی تحقیقات عام سے تحقیقاتی سیل کے بس کی بات نہیں ہے ۔ وزیر اعظم یا وزراء بھی یہ کام نہیں کر سکتے ۔ اس کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن کی ضرورت ہو گی ۔ حکومت کی بد نیتی ابھی سے ظاہر ہورہی ہے کہ تحقیقات شفاف نہیں ہوں گی بلکہ شاید تحقیقات ہی نہ ہوں بس کاغذی کارروائی کر کے کسی سے دو چار دن کے لیے استعفیٰ بھی لے لیا جائے گا ۔ لیکن کیا عمران خان وزیر اعظم ہونے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری سے باز پرس کر سکیں گے ۔ اس حساس معاملے کی تحقیقات سے پہلے آف شور کمپنی ، اس کے قیام ، اس کے لیے سرمایہ کی فراہمی اس کے جائز اور قانونی ہونے کے ثبوت وغیرہ تمام باتوں کو بالکل واضح کیا جانا چاہیے ۔ اس کے بعد کوئی قدم آگے بڑھایاجائے ۔