!ایک این جی او ایسی بھی ہونا چاہیے

420

اب سے چالیس پچاس برس قبل میں نے ایک ٹریفک حادثے کی خبر میں پڑھا تھا کہ نمائش چورنگی پر ایک موٹر سائیکل سوار کو بس نے ٹکر ماری وہ سڑک پر دو گھنٹے تک شدید زخمی حالت میں پڑا رہا کوئی اس کو اٹھانے نہیں آیا تاآنکہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ 1986میں حیدرآباد میں ایم کیو ایم کا جلسہ تھا کراچی سے بہت سی گاڑیاں اس جلسے میں شرکت کے لیے جارہی تھیں کہ سہراب گوٹھ پر ایک خونریز تصادم ہو گیا کئی لوگ اس میں ہلاک و زخمی ہوئے اس تصادم میں ایک ایس ایچ او کی ٹانگ میں گولی لگی وہ کئی افراد سے فریاد کرتا رہا کہ کسی طرح اسے اسپتال پہنچا دیا جائے تو اس کی جان بچ جائے گی لیکن وہ چار گھنٹے تک وہیں پڑا رہا جب اسے اسپتال لے جایا جانے لگا تو اس وقت بھی وہ زندہ تھا اسپتال پہنچتے ہی اس نے دم توڑ دیا ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر یہ آدھے گھنٹے پہلے بھی آجاتا تو ممکن ہے کہ اس کی جان بچ جاتی۔
ہمارے ملک میں روڈ ایکسیڈنٹ میں اسی فی صد اموات اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ انہیں بروقت طبی امداد نہیں مل پاتی روڈ پر بندہ تڑپ رہا ہوتا ہے کسی میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اسے اٹھا کر اسپتال لے جائے جس گاڑی سے ٹکر لگی ہوتی ہے وہ گاڑی والا تو بھاگنے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہے اگر وہ رک جائے تو اکثر واقعات میں وہ مشتعل ہجوم کے تشدد کا نشانہ بن جاتا ہے اگر اس سے بچ جائے اور وہ شخص ہمدردی کی بنیاد پر اس زخمی کو قریبی اسپتال لے جائے تو پہلے اسے پولیس کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس نے یہ سچا بیان دے دیا کہ اسی کی گاڑی سے ٹکر ہوئی ہے تو پھر ہماری پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں کہ اب اس کی کمائی کا اہم ذریعہ سامنے آگیا وہ بے چارہ تو یہ چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا کہ زخمی کو اسپتال تک لے کر آیا بروقت طبی مدد سے اس کی جان بچ جائے کچھ واقعات میں تو ایسا ہوتا ہے کہ زخمی کے گھر والے اسپتال پہنچ جاتے ہیں اگر وہ معقول لوگ ہوتے ہیں تو اس گاڑی والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اکثر حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص روڈ پر عوام کے اشتعال سے تو بچ جاتا ہے لیکن اسپتال میں زخمی کے لواحقین اس کی پٹائی شروع کردیتے ہیں۔
ان وجوہات کی وجہ سے 90فی صد سے زائد حادثات میں ٹکر مارنے والا موقع سے فرار ہو جاتا ہے۔ اس حادثے میں چاہے اس کی غلطی نہ بھی ہو لیکن مشتعل عوام کا خوف غصے میں بھرے لواحقین کا ڈر اور پھر پولیس کی جان لیوا تفتیش کا اندیشہ اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے، ہمارے ایک دوست نے ایک دفعہ اسی طرح حادثے کے ایک زخمی کو اسپتال پہنچایا تھا وہ ایسا شدید زخمی تو نہیں تھا لیکن محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہ اسے اسپتال لے گئے لیکن جس طرح وہ پولیس تفتیش کے جان لیوا عمل سے دوچار ہوئے اس نے ان کے چودہ طبق روشن کردیے کسی رشتہ دار یا جاننے والے کی سفارش لگا کر ان کی گلو خلاصی ہوئی۔ ہمارے یہاں جس طرح کا کرپٹ دفتری نظام ہے اس میں کوئی فرد اپنے اندر ہمدردی اور رحم کا جذبہ رکھنے کے باوجود روڈ پر حادثہ دیکھنے کے باوجود رکتا نہیں ہے اور ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کی ترجمانی مرحوم شاعر پروفیسر عنایت علی خان نے اس طرح کی ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے شہر میں بہت ساری فلاحی تنظیمیں جو بھوکوں کو باعزت طریقے سے کھانا کھلانے کا اہتمام کرتی ہیں شہر میں کئی جگہ ایسے مراکز بنے ہوئے ہیں جہاں باقاعدہ میز کرسی پر بٹھا کر انتہائی با اخلاق میزبانوں کے ذریعے کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ پھر یہ تنظیمیں صرف یہی کام نہیں کرتیں بلکہ باعزت روزگار کے لیے ضرورت مندوں کو بلا سود قرض بھی دیتی ہیں جو ایک متعین مدت میں واپس کردیا جاتا ہے کچھ ضرورت مندوں کو رکشہ بھی دیا جاتا ہے بچیوں کی شادی پر جہیز باکس سے بھی تعاون کیا جاتا ہے شہر کراچی میں الخدمت اس طرح کے خدمت کے کاموں میں سب سے آگے ہے۔
ان تمام خدمتی کاموں کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے لیکن اس شہر کراچی میں کوئی ایسی بھی این جی او ہونی چاہیے جوسڑک پر تڑپتے ہوئے بے یار و مددگار لاوارث انسانوں کو مرنے سے بچالے پھر اس طرح کی جو بھی این جی او تشکیل پائے وہ خدمت کا کوئی اور شعبہ اپنے ہاتھ میں نہ لے بلکہ ساری توجہ اسی طرف مرکوز رکھے۔ اس میں شہر کے مخیر حضرات بھی ایسی این جی او کی آگے بڑھ کر بھرپور مدد کریں۔ اس تنظیم کاشہر میں ایک مرکزی دفتر ہو جہاں متحرک اور فعال اسٹاف اور رضاکار ہمہ وقت تیار رہیں پھر کراچی کے تمام اضلاع میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں یہاں بھی چاق وچوبند رضاکار چوبیس گھنٹے موجود ہوں۔ 15 اور 119 کی طرح اس کا بھی ایسا ہی کوئی نمبر ہو جو ہر شخص کو ازبر ہو اس کی پبلسٹی کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جائیں پورے شہر میں اس این جی او کے اپنے کیمرے لگے ہوں تاکہ جیسے ہی کہیں سے کوئی اطلاع آئے کہ فلاں جگہ حادثہ ہو گیا ہے مرکزی دفتر میں کیمرے کے ذریعے حادثے کی تصدیق اور لوکیشن کا تعین بھی کر سکتی ہے تیز رفتار نئی ایمبولنس ہو فوری طور پر اس این جی او کے رضاکار حادثے کے مقام پر پہنچ کر نہ صرف اس زخمی کو اسپتال لے جائیں بلکہ اپنے سامنے اس کا علاج شروع کروائیں اور اس کے لیے جن بھی دوائوں وغیرہ کی ضرورت ہو اسی این جی او کے رضاکار اخراجات کریں اس کے لیے این جی او کو بھرپور فنڈنگ کرنے کی ضرورت ہے جب وہ زخمی ہوش میں آجائے اس کے گھر والوں کو اطلاع کردیجائے۔ اور وہ تمام اخراجات جو اس درمیان میں ہوئے ہیں گھر والوں کو تمام بل دے دیے جائیں تاکہ وہ اس کی ادائیگی کر دیں اگر لوگ غریب ہوں بلوں کے اخراجات کی ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو انہیں مجبور نہ کریں۔ این جی او کے فنڈ سے اس کے اخراجات پورے کردیے جائیں اس این جی او کے پاس وکلا کی بھی ٹیم ہونا چاہیے تاکہ تھانے اور عدالت کے قانونی معاملات اور اس کی پیچیدگیوں کو مد نظررکھتے ہوئے زخمی کے لواحقین کو پولیس کی چیرہ دستیوں بچانے کی کوشش کریں وہ اگر غریب ہوں تو ان کی فوری مدد کر دی جائے اور زخمی کے علاج معالجے کا بھی مناسب انتظا م کردیں۔
یہ تو میں نے ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے اس اہم موضوع پر میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس کو ڈیزائن کریں اور پھر اس پر کام کا آغاز کیا جائے یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس این جی او میں کام کرنے والے رضاکاروں کی تنخواہیں پرکشش ہونا چاہیے میں اپنے ایک دوست سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کررہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ کچھ فلاحی تنظیمیں یہ کام بھی کررہی ہیں ہماری دکان کے سامنے اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں تو کوئی فرد بھی کسی قریبی فلاحی تنظیم کو فون کرتا ہے تو اس تنظیم کی ایمبولنس آتی ہے اور زخمیوں کو اسپتال لے جاتی ہے میں نے کہا چلیں یہ تو اچھا کام ہے لیکن آگے کیا ہوتا ہے وہ تو زخمی کو اسپتال چھوڑ کر آجاتے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس پورے کام کے لیے الگ ہی سے کوئی فلاحی تنظیم ہو جو پورا کام خود کرے اس کے لیے شہر کے مخیر حضرات کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری دنیا کی جان بچائی۔