امریکی فوج کے اعلیٰ ترین جنرل مارک ملی نے اعتراف کیا ہے کہ افغان جنگ کبھی نہیں جیتی جاسکتی تھی۔ امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی نے یہ اعتراف سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو دیے گئے تحریری بیان میں کیا ہے۔ امریکی جنرل اور دیگر فوجی کمانڈروں نے امریکی قانون ساز ادارے کے ارکان کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان جنگ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ دفاعی اعتبار سے ناکامی کے نتائج ہیں، دشمن آج کابل پر قابض ہے۔ صورتِ حال کو اس کے علاوہ بیان کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ یہ نتائج 20 برس کے اجتماعی اثرات ہیں نہ کہ یہ سب 20 دن میں ہوا ہے۔ جنرل ملی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکا کی حمایت والی افغان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوج کا قیام ممکن ہوسکتا تھا لیکن اس کی قیمت بھی دینی پڑتی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے یکم ستمبر کو بھی اس بات پر غور کیا تھا۔ امریکا ایک بار پھر طالبان کے ساتھ جنگ شروع کردے لیکن اس کے لیے ہمیں مزید 25 ہزار فوجیوں کو افغانستان بھجوانا پڑتا، دوبارہ بگرام ائربیس کو اپنے کنٹرول میں لینا پڑتا، کابل کو 6 ہزار طالبان سے پاک کرنا پڑتا، لیکن اس کام میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوسکتی تھی۔ سینیٹ اور کانگریس کی دفاع اور خارجہ امور سے متعلق کارروائیوں کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارکان کانگریس اور سینیٹ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی ذلت آمیز ہزیمت سے کس قدر غصے میں ہیں، اسی وجہ سے بعض اراکین کمیٹی نے امریکی فوج کے انخلا کے طریقہ کار پر جنرل مارک ملی اور سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن بھی امریکی فوج کے سابق جرنیل ہیں۔ اب ساری بحث اس تناظر میں جاری ہے کہ امریکی شکست کا ذمے دار کون ہے۔ سیاسی قیادت، فوجی جرنیل، انٹیلی جنس ایجنسیوں بالخصوص سی آئی اے کے منصوبہ ساز جو کچھ ہوا ہے کیا امریکی قیادت کے لیے غیر متوقع تھا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، ان کو پوری طرح اندازہ تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان طالبان پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرلیں گے۔ امریکی فوج کی تیار کردہ افغان فوج زیادہ عرصے تک طالبان کی مزاحمت نہیں کرسکے گی۔ لیکن شاید انہیں اس کی توقع نہیں تھی افغان فوج بغیر کسی کشت و خون کے تحلیل ہوجائے گی۔ یہاں وادی پنج شیر بھی افغان طالبان سے جنگ لڑنے سے انکار کردے گی۔ اس وقت امریکی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کیسے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے۔ امریکی افغان طالبان پر دوحا معاہدے کے کسی ایک جز کی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کرسکتی۔ افغان طالبان نے دوحا معاہدے کی تمام شرائط کی پابندیاں کی ہیں۔ دوحا مذاکرات کے بعد بین الافغان مذاکرات اگر نہیں ہوسکے تو اس کی ذمے داری امریکا اور افغانستان پر قابض اس کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ افغان جرنیل اپنی شکست کا ملبہ اشرف غنی حکومت اور اس کی فوج پر بھی نہیں ڈال سکتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے افغانستان پر رحم کیا کہ افغان طالبان نے کابل حکومت کا خلا پرامن طریقے سے پورا کیا، اس لیے ابھی تک افغانستان بڑے پیمانے پر خانہ جنگی سے محفوظ ہے۔ صورتِ حال کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا پر سکتے کا عالم طاری ہے۔ اس خطے میں مستقبل میں بدامنی ہوگی تو اس کا ذمے دار بھی امریکا ہوگا۔ امریکا کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے۔ اس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔