تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا مضمون لازمی قرار دینے پر غور

210

ٹنڈوجام(نمائندہ جسارت) سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے زیر میزبانی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے تعاون سے ملکگیر نجی و سرکاری جامعات پر مشتمل پاکستان یونیورسٹیز اسپورٹس بورڈ کی سب کمیٹیز کا 55 واں اجلاس اور کھیل اور صحت مندانہ سرگرمیوں پر سہ روزہ قومی ورکشاپ شروع ہوگیا ، افتتاحی تقریب یونیورسٹی کے مین آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوئی ، صدارت سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کی، جبکہ صوبائی سیکرٹری برائے کھیل اور نوجوانوں کے امور سید امتیاز علی شاہ مہمان خاص تھے، سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے علاوہ ملک کی 16 سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان کی 90 سے زائد یونیورسٹیوں کے ڈائریکٹر ا سپورٹس نے بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی زراعت ، فوڈ سیکورٹی ، موسمیاتی تبدیلی اور زراعت سے متعلق تحقیق سے متعلق تمام امور سے پوری طرح آگاہ ہے، پہلی مرتبہ سندھ زرعی یونیورسٹی میں قومی سطح کا پروگرام ہوا ہے، جس میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے 16 وائس چانسلرز اور گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر ، پنجاب ، کے پی کے ، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت کی یونیورسٹیوں کے 90 سے زائد کھیلوں کے شعبوں کے ڈائریکٹر زشامل ہیں ، جس میں جامعات کے طلباء کو کھیلوں کے بہترین مواقع فراہم کرنے کی پالیسیوں اور منصوبوں پر مشترکہ بحث کے بعد نئے منصوبے وضع کیے جائیں گے، اس ادارے میں 67 سال میں اس قسم کا میگا ایونٹ نہیں ہوا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خاص اور کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کے صوبائی سیکرٹری سید امتیاز علی شاہ نے کہا کہ حکومت سندھ میں کھیلوں کی حوصلہ افزائی اور اسکول سے یونیورسٹی تک کھیلوں کو لازمی قرار دینے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ اس ضمن میں اسکول سے کالج تک کھیلوں سے متعلق مضمون پڑھایا جائے گا، جس میں 40 فیصد تھیوری اور 60 فیصد پریکٹیکل شامل ہوں گے ، انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ کی اسپورٹس پالیسی نہیں بنی، جبکہ اسپورٹس بورڈ 80 کی دہائی سے موجود ہے۔ لیکن اس کے اجلاس منعقد نہیں ہوتے ، اور نہ ہی قوانین بن سکے ہیں، سند ھ حکومت اس کو فعال بنانے اور اس کے لیے قوانین بنا چکی ہے، اور اس پر کام کر رہی ہے ۔کراچی یونیورسٹی کو وئس چانسلر ڈاکٹر خالد محمد عراقی نے کہا کہ کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے ، ہم نے کھیلنے والے طلباء کو اسکالرشپ دینا شروع کیا ہے اور کھیلوں کو سپورٹ کرنے کے لیے اسپانسر شپ بھی دی جا رہی ہے۔ مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم عقیلی نے کہا کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ہمیں اداروں کو اپنانا ہوگا،لہذا یونیورسٹیوں کو “ہمارے ادارہ” کے بجائے “میرا ادارہ” کہنا پڑے گا۔ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد صدیق کلھوڑو نے کہا2 سال سے جامعہ مالی تنگی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے کھیل کی سرگرمیاں معطل ہیں، اس لئے خصوصی گرانٹ دی جائے، بیگم نصرت بھٹو وومین یونیورسٹی سکھر کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین نے کہا کہ خواتین اور طالبات کیلئے کھیلوں کے مواقع پیدا کرنا ہونگے۔