تعلیم سے بیزاری کی فضا، ذمے دار کون ہے؟

644

چند روز قبل ہی بڑے صاحبزادے واٹس ایپ پر موصول ہونے والا ایک مزاحیہ پیغام، پرجوش انداز میں مجھے سنانے آئے جو یہ تھا کہ ’’سندھ حکومت کا قیامت تک اسکول بند رکھنے کا فیصلہ۔۔۔ اصل امتحان قیامت کے روز ہو گا‘‘۔ متعدد تاخیری حربوں کے بعد بالآخر گزشتہ ہفتے تدریسی عمل بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس مستحسن فیصلے کے پس پردہ پرائیوٹ اسکولوں کے منتظمین کا دبائو تھا یا میرے جیسی ان مائوں کی دعائیں جو آن لائن کلاسوں کے حوالے سے پیش آنے والے مصائب کے ہاتھوں تنگ تھیں اور جن کے لبوں پر ہر دم کلاسوں کے دوبارہ آغاز کا ورد چل رہا تھا۔ پچھلے 19 ماہ سے تعلیمی ادارے مسلسل بند رہنے کی وجہ سے ایک جانب بچوں کا روزمرہ کا معمول متاثر ہوا، تو دوسری جانب یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آن لائن کلاسوں کے غیر دلچسپ اندازِ تدریس نے بچوں کو پڑھائی سے کافی حد تک برگشتہ کر دیا۔
بچوں کو صبح کافی تگ و دو کے بعد کلاسیں لینے کے لیے آمادہ کیا جاتا۔ بڑی کلاسوں کے بچے تو طوعاً و کرہاً کلاسیں لے ہی لیتے مگر چھوٹی کلاس کے بچے جن کو کلاسوں میں اساتذہ مختلف تدریسی حربے اختیار کر کے خشک اور بھاری بھرکم موضوعات کو ہلکے پھلکے اور دلچسپ انداز میں ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے یہ کلاسیں جور و جبر سے کم نہ تھیں۔ اکثر و بیش تر ایسا ہوتا کہ بچے کو پوری تیاری کے ساتھ موبائل تھما کر بٹھایا جاتا مگر اچانک کے الیکٹرک کا عملہ تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیتا اور موبائل کی اسکرین پر ’’ڈس کنکشن‘‘ کی عبارت گویا منہ چڑا رہی ہوتی۔ اس کے علاوہ کبھی آواز نہ آنے کا مسئلہ، کبھی کلاس میں شامل دیگر بچوں کا شور و ہنگامہ… اور میری طرح جس ماں کے اسکول جانے والے بچوں کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے بچے بھی ہوں وہاں اکثر و بیش تر گھر کے اندر کا شور، آن لائن کلاس لینے کے لیے مطلوب یکسوئی کو بری طرح درہم برہم کر دیتا۔ یوں بیش تر والدین نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ تدریس کے لیے آن لائن کلاس پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ٹیوشن لگوائی گئی۔ آن لائن کلاس میں محض ’’حاضری‘‘ لگوائی جاتی اور اسباق کا فہم ٹیوشن کے ذریعے دلوایا گیا۔ اس طریقہ تدریس میں والدین کی جیبوں پر دہرا تہرا بوجھ پڑا۔ کورونا کے اس دور میں تمام تر پابندیوں کا نشانہ تعلیمی ادارے رہے۔ جبکہ تمام پر ہجوم مقامات پر ہجوم لگانے کی اجازت مل جانے کے بعد بھی تعلیمی ادارے پابندیوں کی زد میں رہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ایس او پیز پر تعلیمی اداروں ہی میں عملدر آمد ہوتا رہا ہے۔ ایک طرف کورونا کی یہ ستم ظریفیاں جنہوں نے تعلیمی ادارے کھلے رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ابہام و انتظار کی کیفیت سے دوچار رکھا، دوسری جانب بورڈ کے امتحان دینے والے طلبہ کے ساتھ کھلواڑ جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ تبدیل شدہ نصاب کی کتب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے بلکہ اس بارے میں بھی ابہام ہے کہ کس مضمون کا نصاب تبدیل ہونا ہے اور کس کا نہیں۔
بڑی صاحبزادی جو اسی سال نہم کلاس میں پہنچی ہے، پچھلے دو تین گھنٹوں سے موبائل کی اسکرین پر نظریں گاڑے کچھ لکھنے میں مصروف تھی، کافی دیر بعد موبائل پٹخ کر سر تھامے میرے پاس چلی آئی اور قدرے الجھے ہوئے انداز میں بپتا سنائی کہ ’’کیمسٹری کی ٹیچر کتاب مارکیٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے pdf بھیج رہی ہیں اور ہمیں یہ پورا کام رجسٹر میں اتارنا ہے‘‘۔ ڈیجیٹل اسکرین کو خواہ کتنا ہی زوم کر لیں مگر اس پر نظر آنے والے ٹیکسٹ کو نقل کرنے میں آنکھوں کا ستیاناس لگ جاتا ہے۔ ان سطور کو تحریر کرنے کے دوران باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نہم جماعت کی ریاضی کی کتاب مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور اس کا جدید ایڈیشن نیٹ پر اپ لوڈ ہو چکا ہے۔ جبکہ نہم جماعت کی تدریس ایک ماہ سے شروع ہے اور بیش تر اسکولوں میں ریاضی کے اسباق پچھلے ایڈیشن ہی سے کرائے جا چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مشہور و معروف اسکول چین سے وابستہ پرنسپل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’’دہم جماعت میں طلبہ کے ایک گروپ نے کوئی تحریری کام کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کر رہے بلکہ ڈھٹائی پر کمر باندھ لی ہے ان طلبہ کا موقف یہ ہے کہ ہم نے پچھلے سال تقریباً آدھے رجسٹر لکھ لکھ کر سیاہ کر لیے تھے مگر اس کے بعد اچانک نصاب کم یا تبدیل کر دیا گیا۔ یوں ہماری محنت ضائع گئی۔ اور تبدیل شدہ نصاب کا کام دوبارہ کرنا پڑا۔ لہٰذا جب تک نصاب یقینی نہیں ہو جاتا، ہم کوئی کام نہیں کریں گے‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم سے بیزاری کی جو فضا ابھر رہی ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ کورونا، وزارت تعلیم کی عدم سنجیدگی یا اسکولوں کی انتظامیہ۔
پچھلے تعلیمی سال کا آغاز و اختتام جس طریقے سے ہوا اور بورڈ کے امتحانات میں پہلی بار قدم رنجہ کرنے والے طلبہ اور بالخصوص ان کے والدین جس ٹینشن سے گزرتے رہے اس کا اندازہ صرف انہی کو ہو سکتا ہے۔ ہر عملی مضمون کے 12 پریکٹیکل تھے جنہیں آخرکار عملی امتحانات سے چند دن قبل 6 کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ کبھی خبر آتی ہے کہ تمام مضامین کے پیپر لیے جائیں گے اور کبھی یہ اطلاع آتی ہے کہ سات میں سے چار کے پیپر ہوں گے۔
اسلاف کے شاندار ماضی کے حوالے سے تخلیق کردہ ڈراموں کو اکثر و بیش تر حسرت سے دیکھتی ہوں۔ جب تعلیم بچوں کو ابتدا ہی سے جدوجہد، جستجو اور جہاد کا راستہ دکھاتی تھی۔ جب تعلیم کے ساتھ ساتھ تلوار بازی، نیزہ بازی اور گھڑسواری جیسی مہارتوں میں طاق کیا جاتا تھا۔ چنانچہ سترہ اٹھارہ برس کے نوجوان سلطنتیں وسیع کرتے نظر آتے۔ یہی نوجوان آج ان مہارتوں کی الف بے سے بھی ناواقف ہیں۔ جدوجہد کے بجائے جمود کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ماضی میں سلطنتوں کو بام عروج پر لے جانے والے آج کے یہی نوجوان گھر کا سودا سلف لینے جاتے ہیں تو واپس آتے آتے تھکن سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔ بچوں بالخصوص نوجوانوں کو موبائل کی اسکرین پر کئی کئی گھنٹے یک ٹک نظریں گاڑے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ شمشیر وسناں کے علم سے ناواقف و بیگانہ آج کے مسلم نوجوان کو غیر سنجیدہ تدریسی پالیسیاں اپنا کر کیا جدید عصری علوم سے بھی برگشتہ کر دیا جائے گا؟