ٹک ٹوک کی ٹک ٹک

669

ایک سفر سے واپسی پر جب گھر پہنچی تو دیکھا کہ لفٹ کے پاس تو ایک رش لگا ہوا تھا مجھے تو پہلے مالے تک ہی جانا تھا لیکن ساتھ کھڑے بھائی کو چوتھے مالے تک جانا تھا لیکن میرے احترام میں وہ پیچھے ہٹ گئے اور اشارہ کیا کہ پہلے آپ چلی جائیں وہ شخص عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا لیکن چونکہ ایک باعزت مرد تھا اور اسے معلوم تھا کہ ایک خاتون کی عزت کیا ہوتی ہے وہ بھی میرے پاک وطن پاکستان کا ایک آدمی تھا اور وہ ایک آدمی ہی نہیں بلکہ ہمارے پاک وطن پاکستان کے کئی مرد ایسے ہی ہیں اس بات سے دل میں مردوں کا احترام اجاگر ہوا پھر اچانک سے مینار پاکستان میں ہونے والا واقعہ میرے دماغ میں بجلی کی طرح کوندہ اور ان لبرلز کے بارے میں بھی خیال آیا جو عورت کے حقوق کے لیے عجیب وغریب نعرے لگاتے رہتے ہیں اور پھر تھوڑے سے غور وفکر کے بعد یہی سمجھ میں آیا کے ہر طرح کے انسان دنیا میں پائے جاتے ہیں بدتہذیب بھی اور تہذیب یافتہ بھی اگر معاشرے میں ہمیں کہیں بدتہذیبی کی کوئی تصویر نظر آئی تو یقینا اس کے پیچھے کچھ حقائق تھے جن سے سب آشنا ہیں۔ قرآن کریم میں صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا گیا: ’’جب اپنے گھروں سے نکلو تو اپنے چہروں کو اپنی اوڑھنیوں سے ڈھانپ لیا کرو تاکہ پہچان لی جاؤ اور ستائی نہ جاؤ‘‘۔
رب کریم کا فرمان ہر دور کے لیے ہے اگر وہ خاتون رب کریم کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق گھر سے نکلتی تو سو فی صد ممکن تھا کہ اس طرح سے نہ ستائی جاتی میرے لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں ان لوگوں کی حمایت میں بات کر رہی ہوں جنہوں نے درندوں کی طرح اس خاتون سے چھینا جھپٹی کی حقیقت یہی ہے کہ معاشرے کا اگر وسیع نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی احکامات سے دوری ہی تباہی کا منظر پیش کرتی ہے جب ٹک ٹوک ایک نامناسب ایپ ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اس پر فی الفور پابندی لگائی جائے تاکہ اس طرح کے واقعات میں کمی لائی جا سکے دوسری اہم بات یہ ہے جیسا کہ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا: ’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا‘‘۔
تو ماؤں کو چاہیے کہ بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں کی بھی ایسی تربیت کریں کہ ان کے سامنے جب ایک خاتون آئیں تو وہ جس بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو یا جیسی بھی ہو اس خاتون کا مکمل طور پر احترام کرے اپنی نگاہوں کا پردہ رکھے خواتین کو چاہیے کہ اپنے لباس کی طرف نظر ثانی کریں۔
ضیاء الحق کے وقت میں خواتین بغیر سر ڈھانکے ٹی وی پر نہیں آ سکتی تھی تو جس طرح سے حکومت سختی سے ماسک پہنوا رہی ہے اور ویکسین لگوا رہی ہیں تاکہ یہ ظاہری بیماری جس کا نام کورونا ہے اس سے بچا جا سکے تو میری حکومت سے درخواست ہے کہ بالکل ایسی سختی سے مناسب لباس کا بھی تعین کروایا جائے تاکہ یہ معاشرہ بہت ساری اخلاقی برائیوں سے بچ سکے حکومت کو چاہیے کہ موبائل پر باآسانی فحش مواد مہیا نہ ہو سکے اور ٹک ٹوک، سنیک ویڈیو اور اس جیسی بہت ساری ایپس پر پابندی لگائی جائے۔
میڈیا پر بڑھتی ہوئی بے حیائی کے سمندر کو روکا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں میں صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، خالد بن ولید اور ٹیپو سلطان جیسے مرد مجاہد سامنے آئیں۔ آج کل کے نوجوان ان جیسی ایپس کی وجہ سے حرام اور حلال کا فرق بھول کر آسانی کے ساتھ پیسہ کمانے کی لت میں پڑ گئے ہیں حالانکہ جو اللہ رب العزت نے انسان کی قسمت میں لکھا ہے وہ انہیں مل کر ہی رہے گا لیکن ان جیسی ایپس کی وجہ سے بچے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں انہی ایپس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے کبھی کوئی اپنے آپ کو گولی سے اڑا لیتا ہے تو کبھی کوئی ٹرین کے نیچے آکر مر جاتا ہے کبھی کوئی دریا میں کود جاتا ہے تو کبھی کوئی گٹر میں گر جاتا ہے لیکن یہ کیسا نشہ ہے کہ اس کی تباہ کاریاں اس وقت تو محسوس نہیں ہوتی لیکن بعد میں انسانوں کی زندگی تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ اعلیٰ حکام سے میری گزارش ہے کہ اس بات کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے ورنہ کبھی پارلیمنٹ ہاؤس تو کبھی مینار پاکستان اور آنے والے وقتوں میں نہ جانے ہمارے کتنے معتبر مقامات انہی ایپس کی نظر ہو جائیں۔