یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا!

438

افغانستان میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کی تاریخی ہزیمت اور نہتے افغانیوں کی فتح پر جمعے کو کراچی سمیت پورے ملک میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی اپیل پر یوم تشکر و دعا منایا گیا، مساجد میں لاکھوں مسلمانوں نے اس عظیم کامیابی پر سجدۂ شکر ادا کیا اور اتحاد امت کے لیے دعائیں کیں۔ ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہات میں نماز جمعہ کے بعد ریلیاں اور جلوس نکالے گئے، جن میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ افغانستان کی تاریخ ہے کہ غیرت مند افغانیوں نے کسی بھی دور میں طاغوتی اور سامراجی قوتوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا، جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزام کے ساتھ داخل ہونے والی قوتوں کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے، جن قوتوں نے افغانیوں کو نرم چارہ سمجھ کر نگلنے کی کوشش کی انہیں جلد ہی وقت، حالات اور مزاحمت نے بتادیا ہے یہ لوہے کے چنے ہیں، امریکا اور ناٹو ممالک سے قبل یہاں تاجِ برطانیہ اور روس نے بھی پنجہ آزمائی کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے، بلاشبہ افغانستان میں اسلامی قوتوں کی کامیابی سے پوری امت کا سر فخر سے بلند ہوا ہے، یہ اس صدی کا حیران کن واقع ہے کہ افغانستان میں امریکا اور پوری مغربی دنیا شکست دوچار ہوئی، استعماری قوتوں کی تاریخی ہزیمت اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ جنگیں آراستہ فوجوں، جنگی آلات، خوش رو و خوش پوش سپاہیوں، ٹینکوں توپوں، بندوقوں اور عسکری وسائل سے نہیں جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے لڑی جاتی ہیں، مٹھی بھر درویش صفت مجاہدوں نے اپنے کردار و عمل سے پوری دنیا کو سبق دیا ہے کہ سب سے بڑی طاقت اللہ پر بھروسے کی طاقت ہے، یقین اگر غیر متزلزل ہو تو بڑی سے بڑی قوت کو خاک چٹائی جا سکتی ہے۔ امیر جماعت نے بھی اسی بات کو اْجا گر کرتے ہوئے کہا کہ ’’46ممالک کی افواج کا جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی افغانیوں کے جذبہ ایمانی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا‘‘۔ بلاشبہ افغانستان کی فتح پاکستان سمیت پوری امت کی فتح ہے۔ افغان عوام پر 20 سال تک مسلسل بارود کی بارش کی جاتی رہے، مگر افغانیوں نے جارح قوتوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے نہ مداہنت دکھائی جس کے نتیجے میں اللہ نے انہیں تاریخی کامیابی سے سرفراز کیا اور آج یہ خاک نشین تخت نشین بننے جارہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی شکست کے پس منظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی فوجوں نے طاقت کے نشے میں مست، جنگلی بھینسے کی طرح مسلم ممالک کی آزادی اور خود مختاری کو پامال کیا ہے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کرعراق میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا بعدازاں بڑی ڈھٹائی سے اس امر کو تسلیم کیا گیا کہ یہ الزام ہی غلط تھا، یہی امریکا کی دہشت گردی کی تاریخ پرانی ہے، امریکا نے کوریا، ویت نام کو بے بنیاد نشانہ بنایا، خلیجی میں جنگ چھیڑی، اپنی مطلب براری کے لیے صومالیہ، یمن، لیبیا اور شام میں انارکی کی فضا ہموار کی گئی اور پھر نائن الیون کے واقعے کے صرف 24 گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے افغانستان پر حملے اور صلیبی جنگ کا اعلان کیاگیا، اْس وقت تک تو حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات اْن کی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا، گویا نائین الیون صرف بہانہ تھا اور یہ بھی اس خطے میں بھارت کے ساتھ ایک بڑا منصوبہ اور کھیل تھا لیکن وہ کھیل مجاہدین طالبان نے ناکام بنادیا اور اب نتیجہ یہ ہے کہ اپنے سارے وسائل لگانے، طالبان کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کرنے کے بعد بھی بڑی رسوائی کے ساتھ امریکا کو افغانستان سے جانا پڑا اور دنیا کے پاس تجزیے اور تبصرے کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا لیکن سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ مغرب کے ایک تجزیہ نگار ڈومینک ٹیرنی نے اپنی کتاب ’’دی رائٹ وے ٹو لوز اے وار: امریکا ان این ایج آف اَن ون ایبل کانفلکٹ‘‘ میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا حالیہ جنگیں ہار چکا ہے۔ اس کتاب میں ڈومینک ٹیرنی نے لکھا ہے کہ کس طرح امریکا نے مہلک گوریلا جنگ کے اس نئے دور سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سخت جدوجہد کی ہے۔ نتیجتاً، زیادہ تر بڑی امریکی جنگوں کا انجام فوجی ناکامی رہا ہے۔ اور میدان جنگ میں تباہی کے وقت امریکا دلدل سے نکلنے سے قاصر رہا ہے، جس کے ہزاروں امریکی فوجیوں اور ہمارے اتحادیوں کے لیے سنگین نتائج سامنے آئے ہیں۔ صدر جارج بش کی تقریر لکھنے والے ڈیوڈ فروم نے پہلے عراق میں امریکی جنگ کی حمایت کی تھی لیکن اب ان کی رائے بدل گئی ہے۔ وہ ایک مضمون میں کہتے ہیں: ’’ہم نے سوچا تھا کہ ہم عراق کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم نہیں تھے۔ ہم لاعلم اور متکبر تھے اور ہم انسانی مصائب کے ذمے دار بن گئے جو کسی کے لیے اچھا نہیں تھا، نہ امریکیوں کے لیے اور نہ ہی ان کے لیے اور نہ ہی اس علاقے کے لیے‘‘۔ تو یہ ہے امریکا اس کی حقیقت اور اس کی طاقت جو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اللہ کے دشمن اپنی چالیں چلتے اور اللہ اپنی، کیونکہ جو اللہ کی طرف دیکھتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں بلا شبہ اللہ ان کا ساتھ دیتا ہے۔ اور یہ بات امریکی ناکامی اور شکست کا تجزیہ کرنے والے مغربی مفکر اپنے انداز میں کہتے ہیں مصنف کارٹر ملکا سیئن نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ: ’’طالبان مذہب سے کچھ اس طرح متاثر تھے کہ اس بات نے انہیں جنگ میں طاقتور بنایا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کیا اور غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ ان کے خیالات نے عام افغانوں کو متاثر کیا جب کہ سرکاری فوجیوں کے لیے ایسی کوئی ترغیب نہیں تھی۔ وہ بغیر کسی مقصد کے لڑ رہے تھے‘‘۔ اسی طرح جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر پروفیسر آفتاب کمال پاشا بھی امریکی شکست کی بڑی وجہ مقامی ثقافت کے بارے میں مضبوط فہم کا فقدان سمجھنے کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب طالبان میدان میں لڑنے آتے تھے تو وہ سر پر کفن باندھ کر آتے تھے۔ اس کے برخلاف امریکی اور افغان سرکاری افواج کی ترجیح جان بچانا تھی‘‘۔ ان اعتراف اور حقائق سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طالبان مجاہدین کی کامیابی کا راز صرف اور صرف جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار ہوکر امریکا کا مقابلہ کرنا ہے اور انہوں نے یہ خوب کردکھایا، کیونکہ جو لوگ اللہ کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی نہیں کرتے وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں اور مجاہدین افغانستان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی غلامی کو کبھی قبول نہیں کیا، ہم بھی اگر امریکا کی غلامی کو قبول نہ کریں اور ایمان کی طاقت کی بنیاد پر امریکا کے ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبے پر ’’نو مور‘‘ کہنا شروع کردیں تو یقینا امریکی غلامی سے نکلنے کے بعد ہمارے دن بھی پھر جائیں گے، اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اور جیسا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے یوم تشکر کے موقع پر پھر کہا ہے کہ پاکستان امریکا اور مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے افغان حکومت کو تسلیم کرے، کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں بھی امن ہو گا۔ مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔