میت سے بھی خوفزدہ بھارت

629

جدوجہد آزادیٔ کشمیر اور الحاق پاکستان کی توانا آواز سید علی گیلانی، اس حالت میں اپنے خالق کے حضور پیش ہو گئے کہ بھارت کے حکمرانوں نے پیرانہ سالی کے باوجود کم بیش بارہ برس سے انہیں گھر میں نظر بند کر رکھا تھا ان کی باقی زندگی بھی کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرتے یا پس دیوار زنداں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزاری مگر کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ وہ اپنی جرأت و بہادری اور اپنے مشن سے غیر متزلزل وابستگی کے سبب زندگی بھر تو ظالم و جابر بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر سوار رہے مگر کمال یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی بھارت کے سول و فوجی ارباب اقتدار و اختیار سید علی گیلانی مرحوم و مغفور کے خوف و دہشت میں بری طرح مبتلا ہیں چنانچہ علامہ اقبال کے شاہین اور سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مرد مجاہد سید علی شاہ گیلانی کے اس جہان فانی سے رخصت ہو جانے کے باوجود یہ ان کی شخصیت کی ہیبت تھی کہ بھارتی فوج نے وادی کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے بدل قائد حریت کے جنازہ میں شرکت سے لوگوں کو روکنے کے لیے پورے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گلیوں، بازاروں اور سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا۔ فوج کی بھاری نفری کی پابندیوں کی اس فضا میں مرحوم کے اہل خانہ نے انہیں غسل دینے کے بعد میت کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر ان کی پاکستان سے ازلی وابستگی کا عملی اظہار کیا۔ اہل خانہ مرحوم کی وصیت کے مطابق انہیں جہاد آزادیٔ کشمیر کے شہداء کے قبرستان میں دفن کرنا چاہتے تھے مگر جنازہ میں مرحوم کے جانثاروں کی بڑی تعداد میں شرکت سے خوفزدہ قابض انتظامیہ نے تمام انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے رات گئے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر میت کو زبردستی تحویل میں لے لیا۔ دکھ کی اس گھڑی میں ظالمانہ کارروائی کے دوران مزاحمت پر مرحوم کے اہل خانہ خصوصاً خواتین تک کو تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا جس سے سید علی گیلانی کا بیٹا اور بہو زخمی بھی ہو گئے۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے مرحوم کے عقیدت مندوں کو ان کی آخری جھلک دیکھنے کی اجازت دی اور نہ ہی نماز جنازہ میں شریک ہونے دیا بلکہ نماز فجر سے بھی قبل صبح ساڑھے چار بجے عجلت میں گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر حیدر پورہ کے قبرستان میں زبردستی سپرد خاک کر دیا۔ نماز جنازہ میں صرف اہل خانہ، چند قریبی رشتے دار اور ہمسائے ہی شریک ہو سکے۔ صحافیوں تک کو حیدر پورہ کی جانب جانے کی اجازت بھارتی فوج نے نہیں دی رابطوں کو منقطع کرنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی معطل رکھی گئی ہے حریت قیادت پہلے ہی قید یا نظر بند ہے جب کہ باقی ماندہ کئی رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے اس کے باوجود حریت رہنمائوں کی ہدایت پر مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے کونے کونے میں مرحوم کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے اور نوجوان فوج کی ہر قسم کی پابندیوں کو روندتے اور سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے سید علی گیلانی اور تحریک آزادی سے وابستگی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پوری وادی سید علی گیلانی کے دیئے ہوئے نعرے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ سے گونج رہی ہے۔ سید علی گیلانی بلاشبہ عظیم مجاہد آزادی، نظریاتی پختگی کا روشن مینار جرأت کے پیکر، حریت فکر کی روشن علامت اور با عمل و باکردار رہنما تھے جنہوں نے کشمیری مسلمانوں کی تین نسلوں کی رہنمائی کی اور انہیں نیا عزم و حوصلہ بخشا، انہوں نے امت مسلمہ، پاکستان اور کشمیر کے مسلمانوں سے وفا کا حق ادا کیا، ان کی وفات صرف کشمیر یا پاکستان ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کے لیے نقصان اور صدمے کا سبب ہے۔ بھارت نے ان کی وفات پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہاں کے ذرائع ابلاغ نے ان کے انتقال اور تجہیز و تکفین کی خبروں کو جس طرح نظر انداز کیا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ مرحوم کی وفات کے بعد بھی ان سے کس قدر خوفزدہ اور مرعوب ہے۔ بھارت کی انتہا پسند نریندر مودی حکومت نے کشمیری عوام کو اپنے قائد کے جنازے اور تجہیز و تکفین میں بندوق کے زور پر شرکت سے روک کر تمام انسانی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی اصولوں کو بری طرح پامال کیا ہے، جس نے مصر میں اپنے دقت کے آمر حکمرانوں کی یاد تازہ کر دی ہے جنہوں نے اخوان المسلمون کے شہید رہنمائوں کے جنازوں سے بالکل اسی طرح کا سلوک کیا تھا جو بھارتی حکمرانوں کی جانب سے دیکھنے میں آیا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مصری حکمرانوں کے اس غیر انسانی طرز عمل نے اخوان کے رہنمائوں سے عوام کی محبت اور ان کی قدر و منزلت میں زبردست اضافہ کیا تھا۔ سید علی گیلانی کا معاملہ بھی اخوان رہنمائوں سے مختلف نہیں۔ بھارتی فوج کی تمام تر سختیوں اور حکومتی پابندیوں کے باوجو د کشمیر ی نوجوان بڑی تعداد میں اپنے قائد سے عقیدت کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل کر نعرہ زن ہیں، مقبوضہ اور آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سید علی گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ کے بڑے بڑے اجتماعات مسلمانان عالم کی ان سے محبت کے مظہر ہیں سید علی گیلانی جس مقصد اور مشن کی خاطر غیر متزلزل عزم اور بے مثل دلیری کے ساتھ تادم زیست ڈٹے رہے، ان کی وفات سے بھی ان کے مشن اور مقصد کو یقینا تقویت حاصل ہوئی ہے سید محترم ! بلاشبہ، اک ولولہ تازہ دیا تونے دلوں کو… علامہ اقبال کے شاہین نے اپنے محبوب شاعر کے اس شعر کی عملی تعبیر دنیا کے سامنے پیش کی ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کے تمام اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی کھلے بندوں دھجیاں بکھیرے جانے کے باوجود مہذب دنیا کی جانب سے کوئی حرف احتجاج سننے میں آیا ہے نہ ہی مذمت کے دو بول کسی نے کہنا ضروری سمجھے ہیںتاہم مقام اطمینان ہے کہ افغانستان میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو عبرت ناک شکست سے دو چار کرنے والے فاتحین کا بل نے اپنی باقاعدہ حکومت کے قیام سے قبل ہی اپنی دو ٹوک کشمیر پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے دوحا میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں، مسلمان ہونے کے ناتے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔طالبان حکومت سے تعلقات استوار کرنے کے لیے خواتین کے نام نہاد حقوق اور دیگر خالصتاً افغانستان کے اندرونی معاملات سے متعلق شرائط کا بار بار اعادہ کرنے والے مغربی اور بھارت جیسے دوسرے ممالک کو طالبان کی جانب سے اپنی آئندہ پالیسیوں کے حوالے سے نہایت مسکت جواب ہے۔ دعا ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران بھی طالبان کے اس مبنی برحق موقف کی تقلید کر سکیں اور کشمیر و فلسطین اور دنیا کے دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی توفیق انہیں بھی نصیب ہو۔