الوداع- سیّد علی گیلانی

714

مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے قائد، عظیم مجاہد ِ آزادی سیّد علی شاہ گیلانی بھی اس دُنیائے فانی سے عالم آخرت کی طرف سفر کر گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات بھی انہوں نے قابض استبدادی بھارتی حکومت کی نظر بندی میں گزارے۔ 92 سالہ ضعیف رہنما کی موت سے بھی بھارتی حکومت اتنی خوف خوفزدہ ہے کہ اس نے اہل خاندان اور عقیدت مند کشمیری مسلمانوں کو جنازے اور تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ کشمیری عوام کو اپنے قائد سید علی گیلانی کی تدفین میں شرکت سے روکنے کے لیے کرفیو نافذ کردیا، رابطہ روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی۔ مقبوضہ کشمیر میں الحاقِ پاکستان کی مضبوط ترین آواز گزشتہ 12 برس سے اپنے گھر میں نظر بند تھی۔ اپنی ضعیف العمری کے سبب سے انہوں نے جناب اشرف صحرائی صاحب کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا۔ لیکن وہ بھی بھارتی حکومت کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں استقامت سے جھیلتے ہوئے سید علی گیلانی کی حیات ہی میں وفات پا گئے تھے۔ سید علی گیلانی کی رحلت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سمیت اہل پاکستان کے لیے بڑا صدمہ ہے۔ ایسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ قوموں کے لیے اللہ کا انعام ہوتے ہیں۔ ان کی استقامت اور بے لچک موقف نے انہیں کشمیری مسلمانوں کا محبوب بنادیا تھا۔ ہر درد مند پاکستانی سید علی گیلانی کی رحلت کے صدمے سے غم زدہ ہے۔ وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر سچے پاکستانی تھے۔ اس لیے کہ بھارتی فوج کے محاصرے میں ہونے کے باوجود یہ نعرہ لگانے کی جرأت رکھتے تھے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان کو تحفظ دینے کے حوالے سے دو شخصیات کا کوئی مثل نہیں ہے۔ ایک پاکستان کو جوہری طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو اپنی پوری قوت کے ساتھ رہنمائی کرنے والے بے مثل رہنما سید علی گیلانی۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی مقتدرہ نے بھی اس سچے پاکستانی کی قدر نہیں کی۔ پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے جب بھی مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کی کوئی کوشش کی گئی تو سب سے توانا مزاحمت سید علی گیلانی کی جانب سے ہوئی۔ وہ ایک طرف بھارت کی سامراجی طاقت کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ دوسری طرف ان کا دبائو پاکستانی حکمرانوں کو بھی مجبور کرتا رہا کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے موقف پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بدنام زمانہ کشمیر فارمولے کی مزاحمت بھی سید علی گیلانی ہی نے کی۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے دورہ بھارت کے دوران میں کشمیر سے دست برداری کا بھارتی حکومت کو اشارہ دینے کے لیے سید علی گیلانی سمیت حریت رہنمائوں سے ملاقات سے گریز کیا۔ ان کی آخری مزاحمت وہ تھی جس میں انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر خبر دار کیا تھا کہ ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جس سے مسئلہ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے اور تقسیم کشمیر کی بُو آرہی ہے۔ سید علی گیلانی اپنے بڑھاپے اور بیماری کے باوجود زندگی کے آخری لمحے تک مصروف جہاد رہے، اور حق کی شہادت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ وہ اور ان کے جانشین دونوں نے باطل طاقتوں کی قید میں اپنی زندگی کے آخری ایّام گزارے۔ اب وہ یقینا ہزاروں شہدائے کشمیر کے ہمراہ جنت الفردوس میں اپنے ربّ کی رضا حاصل کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں اور مجاہدین اس احساس سے مزید غم زدہ ہیں کہ ان کی جدوجہد آزادی کی تحریک اپنے سرپرست سے محروم ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اور مجاہدین اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے ہیں، لیکن اصل سرپرست اللہ کی ذات ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کی زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی کسی طاقت پر بھروسا نہ کرو، اصل طاقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات میں ہے، اس کی سرپرستی اہل ایمان کے لیے کافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک 72 برس سے جاری ہے، وہ اس سے قبل ڈوگرا راج کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ اس تحریک کے دوران میں کتنے مایوس کن مراحل آئے، مایوسی کی وجہ سے کئی رہنمائوں نے جابرانہ قوتوں سے مفاہمت کرلی، لیکن جدوجہد جاری رکھی جائے تو اللہ اپنے فضل سے رہنما بھی عطا کردیتا ہے۔ سید علی گیلانی کی زندگی اور موت شہادت دیتی ہے کہ حالات کیسے بھی مایوس کن ہوں اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جانا ہی اصل کام ہے۔ کامیابی اور ناکامی کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ حق پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اس دنیا کے فیصلے اللہ اپنی حکمت کے مطابق کرتا ہے۔ جو شخص یا گروہ حق و باطل کی کش مکش کے دوران میں حق پر استقامت سے قائم رہتا ہے وہی کامیاب ہے اور اس کی زندگی نجانے کے کتنے لوگوں کو حوصلہ دینے اور ان کے جنت میں داخل ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ سید علی گیلانی کی زندگی اور موت ایک کامیاب مومن کی زندگی اور موت ہے۔ بھارت کی حکومت بھی اپنی طاقت کے باوجود شکست کھا گئی۔